ججوں سے متعلق بیان پر وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل انور منصور خان سے استعفیٰ لے لیا

اسلام آباد: انور منصور خان اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے مستعفی ہو گئے، وزارت قانون نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں ججوں سے متعلق پیش کردہ موقف سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔

انور منصور خان نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوا دیا ہے، جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے تعیناتی پرسوال اٹھائے تھے، سپریم کورٹ،سندھ اور کراچی بارز کا تاحیات رکن ہوں، اس صورتحال کی روشنی میں پاکستان بار کے مطالبے پر عہدے سے مستعفیٰ ہو رہا ہوں۔ انور منصور خان نے صدرمملکت سے فوری طور پر استعفی قبول کرنے کی استدعا کی ہے۔

دوسری جانب ذرائع وزارت قانون نے بتایا ہے کہ انور منصور خان سے استعفیٰ مانگا گیا، حکومت نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں انور منصور خان کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

ادھر وفاقی حکومت نے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ انور منصور خان نے 18 فروری کو غیر ضروری بغیر ہدایات کے زبانی بیان دیا جس کے وہ مجاز نہیں تھے۔  وزارت قانون اور وفاقی حکومت اس بیان سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے۔

دو صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا ہےکہ وفاقی حکومت عدلیہ کا بہت احترم کرتی ہے۔ حکومت ملک میں قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، متفرق درخواست صدارتی ریفرنس والے کیس میں دائر کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران انور منصور خان نے 18 فروری کو اپنے دلائل کا آغاز کیا تھا۔ صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔ اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔

اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا کہ جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز’ تھا۔

Comments are closed.