بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کیلئے زینب الرٹ بل 2019 سینیٹ سے منظور

اسلام آباد: پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ)نے کم عمر بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات کی روک تھام سے متعلق زینب الرٹ بل منظور کر لیا۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا جس میں وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے زینب الرٹ بل منظوری کے لئے پیش کیا، مسلم لیگ (ن) کے جاوید عباسی نے بل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ کسی بچے کو زیادتی اور قتل کے ارادے سے اغوا کرنے والوں کے لئے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے جو کم ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ زینب الرٹ بل میں کمزوریاں ہیں، دباو کے ذریعے قصاص کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو کسی صورت قابل قبول نہیں، جس پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بولے کہ مشتاق احمد نے سینیٹ ایوان کو کو ڈکٹیٹ کرنا شروع کردیا ہے، ایسے ایوان نہیں چلے گا۔

 وزیر تعلیم وتربیت شفقت محمود نے کہا کہ بہت سی باتیں کی جارہی ہیں جن میں وزن بھی ہے، لیکن اس وقت قوم چاہتی ہے کہ بل منظور ہو، بل کی منظوری کے بعد اس میں ترامیم کر دیں۔سینیٹرفیصل جاوید کا کہنا تھا کہ بچوں کو درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو الٹا لٹکانا اور پھانسی دینی چاہیے، بل کی منظوری ناگزیر ہے، ہر جگہ اٹھارویں ترمیم کو بیچ میں لایا جاتا ہے۔

رکن قومی اسمبلی مولوی فیض محمد نے کہا کہ یہ قصاص کا مسئلہ ہے، کوئی کسی کو قتل کرے تو اس کے لیے شریعت میں قصاص ہے، جنسی زیادتی اور قتل کی سزا میں قصاص کو شامل کریں۔سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کا بل لایا گیا، حکومت اس بات کا جواب دے کہ وہ بل ایجنڈے میں کیوں شامل نہیں کیا جا رہا، حکومت کو عجلت میں قانون سازی میں نہیں کرنی چاہئے۔

سینیٹ نے اکثریت رائے سے زینب الرٹ بل کی منظوری دے دی، قومی اسمبلی پہلے ہی زینب الرٹ بل کی منظوری دے چکی ہے،بل کے تحت بچوں کے خلاف جرائم کی سزائیں، پھانسی سے لے کر عمر قید اور یا پھر زیادہ سے زیادہ 14 سال اور کم سے کم سات سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔

بل کے تحت قومی کمیشن برائے حقوقِ بچگان کا نام تبدیل کر کے ’زینب الرٹ،رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘ رکھا گیا ہے، ادارے کی سربراہی ایک ڈائریکٹر جنرل رینک کا افسر کرے گا۔ کسی بھی بچے کے اغوا یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعہ کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا ہو گی۔

زینب الرٹ بل کے تحت پولیس کو کسی بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعہ کی رپورٹ درج ہونے کے دو گھنٹوں کے اندر اس پر کارروائی کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔اس بل کے تحت ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جس کا نمبر 1099 ہے۔ اس کے علاوہ ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔

 زینب  الرٹ بل میں کہا گیاہے کہ جائیداد کے حصول کے لیے اگر 18 سال سے کم عمر بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے تو  مجرم کو 14 سال قید اور جرمانہ ہو گا۔ 18 سال سے کم عمر بچے کو ورغلا کر یا اغوا کر کے  دوسری جگہ پر لے جانا، والدین یا قانونی سرپرست کی تحویل سے محروم کرنا بھی قابل سزا جرم ہو گا۔

Comments are closed.