حکومت کے ایک اعلان کے مطابق کورونا وائرس کا پھیلاؤ محدود ہو گیا ہے، اگرچہ ارد گرد سے کورونا کے مریضوں کے بارے میں خبر مل جاتی ہے کہ فلاں کورونا سے متاثر ہے یا فلاں سکول کے اسٹاف میں کورونا کی نشاندھی ہوئی ہے، مگر یہ ضرور ہےکہ شرح اموات میں کچھ کمی تو آئی ہے۔
وزیراعظم نے بھی ایک پیغام میں عوام کو احتیاط کامشورہ دیا ہے کیونکہ عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہے لہٰذا عید الفطر کی طرح کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ نہیں کرنا بلکہ اسے کم کرنا ہے، البتہ مہنگائی کے بارے وزیراعظم نے کچھ نہیں فرمایا کہ حکومت مہنگائی کنٹرول کےلیے بھی کوئی اقدامات کرے گی یا مہنگائی میں اضافے کی کھلی چھٹی دے دی جائے گی۔
مہنگائی،بے روزگاری اور کورونا وباء نے ایک عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ایسے میں سنت ابراہیمی جیسا فریضہ ادا کرنا جوے شیر لانے کے مترادف ہے، لہٰذا غریب آدمی کے لیے تو کیسی قربانی۔۔۔ کہاں کی قربانی ۔۔۔ اب ضروریات زندگی ہی پوری ہو جائیں تو کمال سمجھیے۔
ہمارے وزیراعظم اکثر نچلے طبقے کے لوگوں کے لیے پریشان ہوتے اورفکر میں گھلتے ہیں مگر قرائین سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض پریشان ہو سکتے ہیں یا فکر میں گھل سکتے ہیں اس سے زیادہ ممکن نہیں،خیر یہ بھی بڑی بات ہے اگر وہ یہ بھی نہ کریں تو ارباب اختیار کو کون مجبور کر سکتا ہے جو چاہے انکا حسن کرشمہ ساز کرے۔
حکومت کی جانب سے پنشن بند کرنے اور ریٹائرمنٹ کی حد 55 سال کرنے کی اطلاعات بھی آرہی ہیں اگرچہ ابھی ان کی تصدیق یا تردید نہیں ہوئی ہے مگر افواہوں کا بازار گرم ہے جس کا وزیراعظم کو نوٹس لینا چاہیے۔ اگرچہ عوام الناس میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے جب وزیراعظم بقلم خود کسی چیز کا نوٹس لیں۔
وزیراعظم نے منہگے آٹے کا نوٹس لیا تو وہ بیس روپے اضافے سے منہگا ہو گیا چینی کا نوٹس لیا تو چینی کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی اور کم ہونے کو تیار نہیں۔ جس دن وزیراعظم نےکراچی میں لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لیا یقین کیجیے تین وقت کی لوڈشیڈنگ چار وقت کی ہوچکی ہے اس لیےجب وزیراعظم کسی چیز کا نوٹس لینے کا کہتے ہیں عوام سہم جاتی ہے اور دل میں کہتی ہے رہنے دیجیے حضور معاملہ یوں ہی چلنے دیجیے ہمارا کیا ھے ہم تو جینے کے ہاتھوں مر چلے۔
ادھر اپوزیشن کی طرف دیکھیں تو بلاول بھٹو کچھ جارحانہ موڈ میں نظر آتے ہیں، شہباز شریف تو کورونا کے بعد سے خاموش ہیں اور فی الوقت خاموشی کی سیاست کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ حکومت کی توجہ بدستور نان ایشوز جن میں بلدیہ ٹاؤن جے آی ٹی اور عزیربلوچ جے آی ٹی وغیرہ پر مرکوز ہے،عزیربلوچ جے آئی ٹی کے حوالے سے وفاقی وزیر علی زیدی کافی متحرک نظر آئے لیکن بلدیہ ٹاؤن جے آی ٹی کو حکومت نے قابل اعتناء نہیں سمجھا۔
یہ وہ حکومت ہے جو وظیفے کے طور پر ماڈل ٹاؤن سانحے کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کیا کرتی تھی انکی سیاست کا محور ماڈل ٹاؤن واقعہ تھا اب جبکہ حکومت میں ہیں چاہیں تو سانحہ بلدیہ، سانحہ ماڈل ٹاؤن،ساہیوال سب کی انکوائری کرا سکتی ہے کرانے کو تو شوگرمافیا اور آٹا مافیا کی انکوائری بھی ضروری تھی مگر سچ تو یہ کہ عوام کو کمیشن کی رپورٹ کا لالی پوپ پکڑا دیا ہے، ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا عندیہ نہیں دیا گیا لہذا اس تھوڑے کو بہت جاننا چاہیے آج تک ایسی حکومت نہیں آئی تھی جو ایسی کمیشن رپورٹ پبلک کرے، یہ ہم نہیں خود وزرا کہتے ہیں سو وزراء کا فرمان مستند ہے۔
وزیراعظم نے دیامربھاشا ڈیم منصوبے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا پہلی بار کوئی حکومت اتنے بڑے ڈیم کا منصوبہ لا رہی ہے،گزشتہ 50 سال سے اس پر کام نہیں ہوا، اگرچہ ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ وہ شروع کر چکے تھے اور اس حوالے سے زمین بھی ان کے دور حکومت میں خرید لی گئی تھی لیکن ہمارے وزیراعظم اور انکی کابینہ نے اسکا بھرپور کریڈٹ لیا۔
چونکہ جواقتدار میں ہوتا ہے کریڈٹ اسی کا ہوتا ہےلہزا وزیر اعظم اپنے سپورٹرز کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیں گے کہ یہ منصوبہ انہی کے دور میں شروع ہوا موجودہ حکومت میں کم از کم اتنی پراپیگنڈا پاور ضرور ہے کہ دوسری جنگ عظیم چھیڑنے کا موجب بھی اپوزیشن کو قرار دے سکے جو لوگ خان صاحب کو ایک نو آموز سیاست دان سمجھتے ہیں وہ بھول میں ہیں۔
Comments are closed.