الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی نو منتخب سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے حق میں فیصلہ دے دیا، عدالت عالیہ نے یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے اور نااہل قرار دینے کیلئے دائر تحریک انصاف کی درخواست خارج کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ یوسف رضا گیلانی کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ووٹ ضائع کرنے کے طریقے بتانے ، رشوت کا لالچ دینے کی ویڈیوز سامنے آئیں، کرپٹ پریکٹسز پر یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستگزار سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ کا کیس الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے پہلے اُسی فورم کو استعمال کریں، آپ بڑے اچھے اور قابل صلاحیت عوامی نمائندے ہیں، ایسی درخواستیں یہاں کیوں لے کر آتے ہیں، غیر ضروری طور پر عدالتوں کو سیاسی معاملات لانا ٹھیک نہیں۔
علی نواز اعوان نے کہا کہ ہم یہاں دلائل دینا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ یہاں دلائل نہ دیں، اس عدالت کو پارلیمنٹ پر اعتماد ہے، اس موقع پر یہ رٹ قابل سماعت نہیں ہے[ جو قانون ہے وہی ہوگا، قانون کے بغیر کوئی بھی ہائی کورٹ اس کیس کو نہیں سن سکتا۔ ووٹوں کی خریدو فروخت کے الزامات پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو آپ میں سے ہی ہیں، جو کچھ یہ ہورہا ہے یہ سب کچھ ہماری سوسائٹی کی ویلیوز کو ظاہر کرتا ہے۔
ہم قانون کے مطابق ہی چلیں گے،سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار ہے، اس معاملے میں آپ کا ثبوت ویڈیو ہےسپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ویڈیو ہائی کورٹ میں ثابت کرنا ناممکن ہے، کوورنٹو کی پٹیشن اس موقع پر ہم کوئی آرڈر جاری نہیں کر سکتے،الیکشن کمیشن آئینی فورم ہے وہی اس کا فیصلہ کرے گا، بہت سی چیزیں بہتر ہیں نا کی جائیں۔
Comments are closed.