وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے معاملے پراشرف غنی کے جھوٹ کی وجہ سے امریکا سمیت عالمی برادری کو جھٹکا لگا، دنیا کو افغانستان میں مفاد پرست اور مخلص ممالک کا کردار دیکھنا ہو گا، افغانستان کو تنہاء چھوڑ دینا عقل مندی نہیں ہوگی، عالمی برادری افغانوں کی مدد جاری رکھے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے جرمن ہم منصب ہائیکو ماس نے ملاقات اور وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا، وزیرخارجہ نے کہا کہ جرمن ہم منصب سے افغانستان میں تازہ ترین صورتحال پرتفصیلی تبادلہ خیال کیا، انہوں نے کہا کہ جرمن ہم منصب کو کہا آئیں اور زمینی حقائق خود دیکھیں، عالمی برادری کو افغانستان اور علاقائی مسائل کا حقیقی ادراک کرتے ہوئے مشاورت اور امداد جاری رکھنا ہوگی، افغانستان میں عدم استحکام، مہاجرین کا چیلنج اور مسائل کسی کے حق میں نہیں، جرمنی یورپین یونین کا اہم ترین ملک ہونے کے ناطے افغان معاملے پر اہمیت کا حامل ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے ہوئے انہیں ہرممکن سہولیات، علاج، تعلیم، روزگار فراہم کر رہا ہے، مزید مہاجرین کو قبول کرنا صرف معاشی امداد یا رقم کا معاملہ نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس مزید مہاجرین کو رکھنے کی صلاحیت یا سہولت ہے، کورونا اور معاشی صورتحال کے باعث پاکستان کے لیے مسائل موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سرحدیں کھلی رکھیں، تجارت ہو رہی ہے، لوگ آ جا رہے ہیں، کیوں نہ افغانستان کے اندر ایسے حالات پیدا ہوں کہ افغان اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، مستحکم، پرامن اور خوشحال افغانستان چاہتا ہے، عالمی برادری کو افغانستان کی ہر ممکن مدد کرنا ہو گی۔افغانستان سے متعلق اندازے غلط ثابت ہوئے، اشرف غنی اور ان کے لوگ دنیا کو بتا رہے تھے کہ سب ٹھیک ہے، حالانکہ سب ٹھیک نہیں تھا، جھوٹ بولا گیا، دنیا کو دھچکہ اشرف غنی اینڈ کمپنی کے جھوٹ سے لگا۔ تین لاکھ افغان فوجی کہاں گئے، حکومت کہاں گئی، آپ خود بھاگ گئے، یوں سب دھڑام سے گر گیا، جب طالبان کابل میں داخل ہو رہے تھے تو وہ بھی عدم مزاحمت پر حیران تھے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری انتظار کر رہی ہے اور دیکھ رہی ہے، طالبان کے ابتدائی بیانات حوصلہ افزا ہیں، انہیں موقع دینا چاہیے، یہ مستقبل بتائے گا کہ کیا وہ افغانستان میں متفقہ شراکت داری پر مبنی حکومت چاہتے ہیں، افغانستان، خطے اور عالمی برادری کے لیے رابطے جاری رکھنا ضروری ہے، افغانستان کو تنہاء چھوڑ دینا عقل مندی نہیں ہو گی، ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا، افغان طالبان پر یقین کرنا ان کے وعدوں کا پاس رکھنے پر منحصر کرتا ہے، افغانستان کو ہر ممکن معاشی و اقتصادی امداد کی فراہمی ناگزیر ہے، اگر طالبان امداد اور تعاون چاہتے ہیں تو انہیں انسانی حقوق کی پاسداری کرنا ہو گی۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں سپائیلرز (امن دشمنوں) سے متعلق عالمی برادری کو متنبہ کرتا رہا ہے، دنیا کو افغانستان میں مفاد پرست اورافغانستان سے مخلص ممالک کا کردار دیکھنا ہو گا، افغانستان میں تمام فریقین پر مشتمل متفقہ حکومت کے قیام میں دیر ہے، طالبان نے کہا امریکی نیٹو فوجی انخلاء پر حکومت سے متعلق اعلان کریں گے، امید ہے افغانستان میں تمام فریقین پر مشتمل حکومت کا جلد اعلان کر دیا جائے گا۔
پاکستان کے دورے پر آئے جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اور جرمنی کے تعلقات افغانستان کے علاوہ بھی انتہائی قربت پر مبنی ہیں، افغانستان میں انتہائی ڈرامائی انداز میں حالات تبدیل ہوئے، افغانستان کے حوالے سے عالمی برادری کی عوامی انخلاء کی کلیدی کاوشیں ہیں، پاکستان نے افغان، جرمنی اور دیگر غیرملکیوں کے انخلاء میں کلیدی مدد کی جس پر پاکستان کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کا ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے مشکل صورت حال سے دوچار ہے، جرمنی پہلے ہی سرحدی انتظام اور دیگر امور کے لیے 600 ملین یوروز امداد کر رہا ہے، پاکستان کے ساتھ جرمن شہریوں کے افغانستان سے انخلاء کے لیے قریبی رابطے میں ہیں، افغانستان میں طاقت اور فوج کا استعمال ناکام رہا، اگر دہشتگردی کا خطرہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں تو مشکلات ہوں گی، ہمیں ہر صورت کوشش کرنا ہو گی کہ فوجی حل سے اجتناب کیا جائے، افغانستان کے تناظر میں بھارت ہو یا کوئی اور مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی۔
Comments are closed.