عیدالاضحٰی بچپن میں انتہائی بُور اور محنت کا دن ہوا کرتا تھا، جس میں عیدی کا دوُر دوُر تک کوئی بھی چانس نہیں بنتا تھا، بس صبح سویرے نماز جس کا خطبہ مسلمانوں کی پورے چودہ سو سال کی کہانی اور پھر مسجد کے مسائل جو بلاشبہ نئی تازہ رقم سے حل کرنے کے آسان طریقوں کی یقین دہائیوں کی پوری ایک تفصیلی کمپئین ہوا کرتی جسے علاقے کے انتہائی “متقی ، پرہیز گار “لوگ اپنی نمائشی طبعیت کے ساتھ “ مرصع مرجع” زبان میں بیان کیا کرتے “ پھر وہی چاقو شاقو، چھریاں وریاں ۔۔ اور بیچاری گائے یا بکرا جو ایک ایک گلی ، کوچے میں درجن درجن بھر جام شہادت کے درجے پر فائز ہونے کے لئے بے قرار و مضطرب دکھائی پڑتے ، ایک حشر کا سما ہوا کرتا ، خون آلائشیں ، خوفزدہ بچوں کے چلا چلا کر رونے تڑپنے اور جوان مردوں کا ان بچوں کو پکڑ پکڑ کر زبردستی یہ دلخراش مناظر دکھاتے ہوئے قہقہے لگانا،بزرگ ایسے موقع پر فرمایا کرتے“ یہ سب دیکھنے سے بچوں میں موجود خوف کم ہوتا ہے اور مسلمان بچے کو خون شون سے نہیں ڈرنا چاہئیے کہ اسکی زندگی کا مقصد ہی جہاد ہے، اور خون جہاد کا حصہ۔۔۔۔
پھر رنگین کپڑوں، چوڑیوں، میک آپ سے لدی پھندی گھر کے باورچی خانے میں انتظار کرتی خواتین جو تیل کڑاہی اور مصحالوں سے لیس گردے کپورے ، کلیجی کے انتظار کے ساتھ گھر کے جوانوں بوڑھوں کو خوناں خون دیکھنے کے لئیے بے تاب، اس منظر کا اپنا ایک الگ ہی لیول ہوا کرتا تھا، قربانی کے حوالے سے گھروں میں صرف اتنا بتایا جاتا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اللہ کے حکم پر اپنے عزیز صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ سلام کو قربان کرنے کی نہ صرف ٹھان لی تھی بلکہ انکے گلے پر چھری پھیر بھی دی تھی کہ اللہ کو حضرت ابراہیم کے جذبہ و محبت پر پیار آگیا اور چھری کے نیچے اسماعیل کی جگہ ایک خوبصورت اور تازہ موٹے بکرے کی گردن رکھ دی کہ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے ،وہ چاہے تو دن کو رات میں اور رات کو دن میں تبدیل کرسکتا ہے، پہاڑوں کو روئ اور صحرا کو سمندر کرنے کی طاقت رکھتا ہے، یہ تبلیغ نئے جوان ہوتے مردوں کو اللہ کا احسان مند بنانے میں مدد کیا کرتی کہ اگر حضرت اسماعیل پر چھری پِھر جاتی، یہ سوچ کر ہی اپنی گردن میں ہونے والی خارش اور بے چینی اس مذبح ڈے کی اہمیت کو جیسے چار چاند ہی لگ جاتے۔
موٹے تازے خوبصورت بکرے اور گائے کی قربانی اللہ کو کتنی پسند ہے، اسکا شعور تو بلاشبہ مولوی کو ہی ہے مگر اہل ایمان عام مرد کلمے کی سچائی کی طرح اس پر یقین رکھتا ہے، اور اسی لیے بکرے،گائے میوے کھلا کر بڑے کیے جاتے ہیں اور لاکھوں سے کروڑوں میں خریدے بیچے جاتے ہیں، قربان کرتے ہیں اور پھر انکی کلیجی گردے کپورے دل دماغ انتہائی مصحالے لگا کر کھانا عین ثواب ہے، امسال کراچی کی صرف ایک مویشی منڈی میں عید سے ایک روز قبل ہی جانوروں کی خرید و فروخت کرکے آٹھ ارب روپے کمائے گئے۔ کہا جاتا ہے عین عید کے روز قربانی کا گوشت کھا کر آئی ایم ایف سے اگلے 9 ماہ میں تین ارب ڈالر ادھار ملنے کی خوشی میں ملک کے وزیراعظم سمیت پوری پچیس کروڑ قوم نے خوناں خون گلی کوچوں میں ڈیڑھ سو ارب خرچ کرکے خوب بھنگڑے ڈالے اورتکے کڑاہی فرائی کباب اور دم پُخت ڈکار لیا۔
برصغیر کے مسلمانوں میں قربانی کی روایت کا پھیلاؤ عدل جہانگیری کا حصہ سمجھا جاتا ہے جس کا مقصد گائے کو ذبح کرکے ہندو کلچر کو شکست دینا اور مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا اور پھر پاکستان کے قیام نے خطے کے مسلمانوں کو ہندوستان سے آزادی کے بعد مسلمانوں کو اور کتنی آزادیاں دیں اس پر عالمی برادری کے دانشوروں کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں مگر گائے کا گوشت کھانے کی مکمل آزادی نے گوشت کھانے کی نئی تاریخ رقم ضرور کی ہے اور وہ ابھی اسی آزادی کو انجوائے کرنے میں ایسے مصروف ہیں کہ انہیں باقی کی انسانی آزادیوں کا شعور اور نہ اس شعور کی ضرورت، قربانی اسلام میں سنت ہے، جس کا مطلب ہے ایثار صبر تحمل ، مگر پاکستان میں اسے اسلامی فرائض سے بڑھ کر اہمیت حاصل ہے اور اس کے ذریعے جہاں معاشرتی سماجی حیثیت کا بھی پتہ چلتا ہے، کس کے پاس کتنی دولت ہے، مگر حکومت ٹیکس بڑھانے کی مہم میں قربانی کے ذریعے رتبہ ظاہر کرنے والے پر خوف خدا کے باعث کبھی ہاتھ نہیں ڈالتی، وہیں ایثار تحمل و صبر نے قومی سطح پر کمال فروغ پایا ہے، بھوک، بیماری، بیروزگاری نے نشانے پر لیا ہوا ہے مگر مجال ہے عوام سے حکومت تک کسی نے ابھی تک صبر و تحمل کا دامن چھوڑا ہو،ایثار ایسا کہ نسلیں اجڑ گئیں مگر مجال ہے منہ سے اُف کی آواز بھی کسی کے کان پڑی ہو۔
میڈیا قربانی کی اہمیت کی اس روح کو تکے ، چرغے ، کڑاہی فرائی ، کباب اور گردے کپوروں کی ڈشوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں عام کرکے فروغ دیتا ہے تاکہ اگلے سال اس فرض عظیم پر مذید مسلمان بھی عمل کرنے کی سعادت حاصل کرسکیں، ایک خاتون نے عید کے دوسرے روز پوسٹ لگائی “ گھر میں اتنا گوشت پکا ہے کہ چائے میں بھی مصحالہ ڈال دیا، حالانکہ گوشت میں چائے کی پتی ڈالنی چاہیے تھی کہ سال بھر جس چائے میں روٹی بھگو بھگو کر کھائی اسے اچھے وقتوں میں یاد رکھ کر ظرف کا مظاہرہ کیاجاتا، شاید جوش ملیح آبادی نے غریبوں کی اسی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
ان غریبوں کو مل جائے دولت تو قیامت کردیں
کراچی کے مئیر جو جمہوری لوٹ مار چھینا جھپٹی کی بدولت مئیر بنے ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے امسال کراچی شہر میں انتظامیہ نے 30 ہزار ٹن سے زائد آلائشیں اٹھائی ہیں جبکہ کراچی کے شہریوں کا دعویٰ ہے ابھی 90 ہزار ٹن آلائشیں شہر کی گلی کوچے اور سڑکوں پر پڑی ہیں، جبکہ فوجی کالونیوں ڈی ایچ اے نے گھر گھر اہلکار بھیج کر آلائشیں اٹھوائی ہیں، یاد رہے کراچی شہر کا 67 فیصد علاقہ بیرونی دشمن کے نشانے پر ہونے کے باعث فوج کے زیر انتظام ہے، جہاں چھینا جھپٹی، پکڑو مارو جمہوری مئیر کا کوئی لینا ہے نہ دینا وہاں ابھی 90 ہزار آلائشیں اٹھانے کا کام صرف کتوں اور بلیوں کے حوالے کرنا پڑا ہے۔
باقی ملک بھر کی صورت حال کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں میں اس وقت میں جہاں ہوں، اسکے اطراف میں انسانی آبادی سے زیادہ کتے بستے ہیں، جو اس وقت رات کے دو بجے بھونکنے کے کسی عالمی مقابلے میں پورے جذبہ کے ساتھ شریک ہیں اور دو دن سے پھیلی آلائشوں کی بو تیزی سے کم کرنے میں پوری ایمانداری سے جُتے ہوئے ہیں، مگر اس کے بدلے ان کا مطالبہ ہے حکومت سگ شماری کرانے سے ڈرنے کی بجائے سچائی کا سامنا کرے، ہم ثابت کردیں گے ، علاقے میں انسانوں سے کتوں کی آبادی ہر صورت زیادہ ہے، مگر حکومت نے کتوں کا یہ مطالبہ یہ کہ کر قطعی مسترد کردیا ہے“ تمھاری اصل آبادی بھی ہمارے ہی درمیان ہے جن کی زندگی کا تمہیں علم ہے نہ شعور اور تم انہیں ہم سے الگ سمجھو نہ جانو۔۔
میں نے ایک محتاط حساب لگا کر دیکھا ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے اگلے نو ماہ میں ملنے والا 3 ارب کا ادھار اگلی عید قرباں سے بہت پہلے بکروں دنبوں گائے اونٹ کی خرید و فروخت، قصائی کی بنائی، چھری چاقو ، بغُدے کی دھار لگوائی سے آلائشوں کی صفائی اور کتوں کی بھگائی کو بھی پورا پڑتا نظر نہیں آرہا، جبکہ اس کے بدلے چائے میں روٹی بھگو کر کھانے والوں کو جانے کتنا علم ہے آنے والی مہنگائی چائے میں روٹی بھگونے کو سنہری یاد کے درجے پر فائز کرنے والی ہے۔
Comments are closed.