مقبوضہ جموں وکشمیر جو شروع دن سے ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے ،نے کبھی بھارت کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور اس ریاست پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 78برس کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے۔ان 78برسوں میں سوا پانچ لاکھ کشمیری بھارتی دہشت گردی اور بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجی درندوں کی مانند مقبوضہ جموں وکشمیر کے چپے چپے پر وحشیوں کا روپ دھارے معصوم کشمیریوں کے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں،یوں مقبوضہ جموں وکشمیر دینا کا واحد ایسا خطہ ہے ،جس میں دس لاکھ فوجی تعینات ہیں۔سینکڑوں فوجی کیمپ اور چھاونیاں مقبوضہ جموں و کشمیر کی سرزمین میں قائم ہیں ،قدم پر قدم پر فوجی بینکر اور چوکیاں ہیں،جہاں کشمیریوں کو روک کر ان کی شناخت کرائی جاتی ہے۔ یعنی اپنی ہی سرزمین پر غیروں کے ہاتھوں کشمیریوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کون ہیں؟ گو شناخت کا یہ سلسلہ پہلے بھی جاری تھا،مگر 1989ء کے بعد اس میں نہ صرف شدت آئی بلکہ ایک ایسی صورتحال نے جنم لیا ،جو ناقابل برداشت اور ناقابل قبول تو تھی ہی ،ناقابل فہم بھی ہے کہ بھارت کی دوردراز ریاستوں سے وردی پوش اہلکار مقبوضہ جموں وکشمیر میں پشتنی باشندوں سے پوچھتے ہیں،کہ وہ کون ہیں؟ یہ صورتحال دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے لوگوں کی طرح اہل کشمیر کیلئے بھی ناقابل تصور ہے۔گوکہ 1989 سے قبل بھی صورتحال کوئی مثالی یا دوسرے الفاظ میں صحت مند یا امید افزا نہیں تھی البتہ 1989 کے بعد پور ے مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات یکسر بدل گئے۔ایک مکمل پالیسی شفٹ آگیا۔بھارتی وردی پوشوں کے نزدیک ہر کشمیری ان کا دشمن ٹھرا،ظاہر ہے کہ بھارت کے خلاف دشمنی شروع دن سے اہل کشمیر کے دل ودماغ میں رچی بسی تھی ،لیکن اس میں ابال 1989 کے آخری ایام میں اس وقت آیا جب اہل کشمیر نے صدائے احتجاج میں صدائے بندوق شامل کرکے مسلح جدوجہد کا ڈنکا پوری شدت اور قوت سے بجایا ۔اہل کشمیر کے گبرو جوان نے بھارتی فوجیوں کو اپنے نشانے پر لیا ، مقبوضہ جموں وکشمیر عالمی ذرائع ابلاغ کی نظروں میں آگیا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔پاک بھارت تعلقات جوکہ پہلے سے ہی کشیدہ چلے آرہے رہے تھے،ان کشیدہ حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا۔کئی بار نوبت جنگ تک پہنچ گئی۔کئی مرتبہ مذاکرات کی میز بھی سجی،مگرخطے میں امن کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔1989 سے لیکر آج کے دن تک نہ صر ف ایک لاکھ کے قریب کشمیری اپنی جانوں سے گزر چکے ہیں،بلکہ اہل کشمیر کی عزت و عصمت کو بھی تار تار کیا گیا۔ان کی جائیداد واملاک اور کھیت و کھلیان کو تختہ و تاراج کیا گیا۔بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں کو کشمیریوں سے بھر دیا گیا۔ایسے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا،جو بھارتی فوجیوں کیلئے ایک حفاظتی ڈھال کے بطور کام کرتے ہیں،ان قوانین میں آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ AFSPA بطور خاص شامل ہیں،جس کی موجودگی میں بھارتی فوجیوں کے جرائم کو استثناء کے نام پر تحفظ دیا گیا،تاکہ انہیں کسی عدالتی کٹہرے میں کھڑا نہ ہونا پڑے۔ بھارت کے تمام تر جابرانہ حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود اہل کشمیر اندزاوں کے برعکس سخت واقع ہوئے۔مرد تو مرد خواتین نے بھی جانی قربانیوں سے دریغ نہیں کیا ۔
یہ اہل کشمیر کی سرفروشانہ جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا تھا اور سابق بھارتی وزیر اعظم انجہانی نرسیمارائو نے Sky is the limitکا مشہور جملہ کہہ کر مسئلہ کشمیر کو کچھ لوا ور کچھ دو کی بنیاد پر حل کرنے کی آمادگی ظاہر کی،ظاہر ہے Sky Is The Limit کے پیچھے اہل کشمیر کی لازوال،عظیم ، تاریخ ساز جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر کار فرماتھا۔جو ہر مکتبہ فکر اور شعبہ کیساتھ وابستہ افراد نے بغیرکسی لالچ اور غرض کے دی ہیں۔ یہ ان قربانیوں کا ہی ثمرہے کہ مسئلہ کشمیر سرد خانے سے نکل کر ایک عالمی مسئلہ کی شکل اختیار کرگیا ۔تحریک آزاد ی کشمیر کی قیادت کرنے والوں کو اہل کشمیر نے پلکوں پر بٹھایا۔مگر 2003 میں کل جماعتی حریت کانفرنس تطہیر کے عمل سے گزری اور دوگرپوں میں باضابطہ تقسیم ہوگئی۔پھر رہی سہی کسر 05اگست2019 ء میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے پوری کی گئی۔اس غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کے بعد پوری ریاست پر فوجی محاصرہ مسلط کیا گیا۔پوری آزادی پسند قیادت،حتی کہ کارکنوں کو بھی گرفتار کرکے جیلوں اورعقوبت میں پابند سلاسل کیاگیا۔خواتین کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی،جو ہنوز دہلی کی تہاڑ اور بھارت کی دوسری جیلوں میں قید و بند کی زندگی بسر کررہی ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی تما م آزادی پسند ،دینی اور سماجی تنظیموں کو پابندی کی زد میں لاکر غیر قانونی قرار دیا گیا۔ان کے اثاثے منجمد اور ا ن کے رہنمائوں اور کارکنوں کو بھی بھارتی جیلوں میں مقید کیا گیا۔سقوط کے اس ماحول میں 2020 میں سید علی گیلانی نے یہ کہہ کر حریت کانفرنس سے ترک تعلق کا اعلان کیا کہ بھارتی جبر اپنی جگہ لیکن ہم نے بھی بحیثیت مجموعی اس سرگرمی کا مطاہرہ نہیں کیا ،جو تحریک آزادی میں دی جانے والی قربانیاں ہم سے تقاضا کرتی ہیں۔یعنی دوسروں معنوں میں خاموشی برتی گئی۔ظاہر ہے کہ جب مودی نے ظلم وجبر کے وہ تمام حربے اہل کشمیر کے خلاف آزمائے ،جو شاید اس سے پہلے نہیں آزمائے گئے تھے۔سرینگر میں واقع کل جماعتی حریت کانفرنس کے صدر دفتر کا بورڈ تک اتار کر دفتر کو سیل کیا گیا۔آزادی پسندوں کیلئے کوئی سپیس تو دور کی بات ان کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے گئے۔البتہ یہ ضرور ہوا کہ سات رکنی حریت کانفرنس کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا ،یعنی درجنوں تک پھیل گیا۔گو کہ اس میں بھی اگر چہ کوئی امر معنی نہیں ہے لیکن خود احتسابی کا عمل ہر دور اور وقت کی ضرورت ہے اور کوئی ذی حس اس سے انکار نہیں کرسکتا۔وہیں قومیں اور تحریکیں برگ و بار لاتی ہیں ،جو خود کو احتسابی عمل سے گزارتی ہیں۔ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔بلاشبہ اہل کشمیر کی جدوجہد بے شمار نشیب و فراز سے گزر چکی ہے۔سخت ترین مراحل بھی آئے،ہوا کے جونکوں کی مانند موجودہ تحریک آزادی نے کئی سنگ میل بھی طے کیے،جبکہ اہل کشمیر آج بھی حالات کے تمام تر جبر کے باوجود بھارت کے سامنے کھڑے ہیں۔قربانیوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے ،ریاست کے جنگلوں اور بیابانوں میں کشمیری عوام کے بیٹے اپنا خون بہارہے ہیں۔ان کی میتیں بھی ان کے گھروالوں کے حوالے کرنے کے بجائے بھارتی فوجیو ں کے زیر استعمال قبرستانوں میں دفن کی جاتی ہیں۔جس گھر میں کبھی مجاہدین نے قیام کیا ہو،اس سے یہ کہہ کر ضبط کیا جاتا ہے کہ مذکورہ مکان عسکری تحریک کے احیاء کیلئے استعمال ہوچکا ہے لہذا اس سے اسی الزام میں سیل کیا جاتا ہے۔
گرفتاریاں جاری ہیں،زرعی زمینیں ،باغات اور رہائشی مکانات آئے روز اہل کشمیر سے چھینے جاتے ہیں۔کشمیری مسلمان ملازمین کو ان کی نوکریوں سے برطرف کیا جاتا ہے۔بھائی کے بدلے بھائی کو نوکری سے نکالا جاتا ہے۔آزادی پسند قیادت کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکانے کی پوری پوری کوشش جاری اور اس کیلئے بھارتی عدلیہ کو بطور کندھا استعمال کیا جاتا ہے۔بھارتی جیلوں میں برسوں سے قید کشمیری اب جان لیوا امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں،جن میں خواتین رہنما اور کارکن بھی شامل ہیں۔ کشمیری عوام کی آوازوں کو دبانے کیلئے جھوٹے اور من گھڑت الزامات کا سہارا لیا جا ر ہاہے ۔جس کا مقصد انہیں ایک ایسی جدوجہد سے دستبردار کرانا ہے،جس میں اب تک سوا پانچ لاکھ جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں۔گو اس سب کچھ کے باوجود کشمیری نظربندوں کے عزم و استقامت میں ذرا بھی کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔لیکن ان نطر بندوں کی حالت زار کو اجاگر کرنااہل کشمیر بالعموم اور ان لوگوں کیلئے بالخصوص لازم ہے ،جنہیں علاقائی یا عالمی سطح کے فورموں پر گاہے بگاہے نمائندگی کا موقع ملتا ہے۔ہر ایک نے اپنے حصے کی شمع جلانی ہے۔جو بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں مقید کشمیری مردو زن کے تیئں جذبہ خیر سگالی ہوگا۔کم از کم مقبوضہ جموں وکشمیر سے باہر سرزمین کشمیر کیساتھ تعلق رکھنے والوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اپنا کردار نبھائیں اور اس کو سمجھیں،کیونکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ،قوموں کی تاریخ میں نازک مراحل بھی آتے ہیں ،لیکن ایک زیرک قیادت فروعی معاملات میں الجھنے کے بجائے قوم کی نیا کو پار لگانے کی سعی میں جدوجہد کرتی ہے۔وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا،نہ ہی پلٹ کے واپس آتا ہے۔جو لوگ اپنا آج قوم کی کل پر قربان کرچکے ہیں،وہ کل بھی محترم تھے ،آج بھی ہیں اور آنے والے کل میں بھی محترم ہوں گے ۔ان کے بچوں کیلئے ہمدردری ایک فطری امر ہے ،جس سے کسی صورت صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔
یہ قربانیاں ہی تحریک آزادی کا اثاثہ ہیں،جس کی حفاظت کرنا ناگزیر ہے۔تحریکیں بار بار برپا نہیں ہوتیں،اس کیلئے خون جگر جلانے پڑتے ہیں۔تحریکوں میں وقتی ٹھرائو بھی آتا ہے،جس سے گھبرانا نہیں البتہ مصلحتوں سے اجتناب ضروری ہے۔درویش اندیش قیادت ہی کشتی کو بھنور سے نکال کر کنارے لاتی ہے۔ہماری تحریک بھی دور اندیش قیادت کا ہی تقاضاکرتی ہے۔ پسند اور ناپسند سے خود کو دور رکھنا ہی تحریک آزادی کی کامیابی کاضامن ہے،اوراہل کشمیر طویل عرصے سے اس کردار کے متمنی ہیں۔کیونکہ پوری دنیا میں وقع پذیر تبدیلیاں ہم سے یہی تقاضا کرتی ہیں کہ ہم خود کو ان تبدیلیوں کیساتھ خود کو ہم آہنگ کریں۔
Comments are closed.