میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں!
اس منظر کی کوئی شے میرے لیے اجنبی نہ تھی برس ہا برس سے میری آنکھیں اسے ہر روز دیکھ رہی تھیں۔ ہر روز اس پر چند کہانیاں نمودار ہوتیں۔ ان سب کہانیوں کے کردار کسی نہ کسی درد کا چارہ، کسی مشکل کا مداوہ کرنے کے لیے آتے تھے۔ مجھے وہ دن بھی خوب یاد ہے کہ جب میں پہلی بار ایک پریشان حال بزرگ شہری کے ساتھ ان کی بات کی وضاحت کرنے یہاں داخل ہوئی تھی۔ اس دن کے بعد تو ایسی کئی کہانیوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جس کا شمار بھی میرے لیے شاید ممکن نہیں۔ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ اس جگہ کے اوپر بھی خدا کا کوئی خاص فضل ہو گا کہ لوگ مایوسیاں، آنسو اور پریشانیاں لے کر آتے ہیں مگر جاتے ہوئے لہجوں میں تشکر اور اچھے کی امید لے کر جاتے ہیں۔ میرے لئے عبادت گاہ جیسا تقدس رکھنے والا یہ سجا سجایا خوبصورت دفتر آج اتنے برسوں بعد جیسے تاریک ویرانوں کی وحشتیں لیے مجھے گھور رہا تھا۔ درودیوار سے لے کر دیگر موجودات کی صفائی جیسے حقیقتوں کو چھپا کر اختیار کی گئی کوئی منافقت ہو۔ کشادگی، آزادی کا احساس دلانے کی بجائے نگل لینے تاثر دے رہی تھی۔ میں نے اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں اپنے فیصلے پر قائم رہنے کا کہا، تو وہ منت سماجت چھوڑ کر اپنی کرسی سے اٹھا اور دونوں پیروں پر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ پتلون کی جیبوں میں ہاتھ اڑس کر اس نے کسی فلم کے کردار کی طرح نپے تلے قدموں سے میز کے گرد چکر کاٹا اور میرے سامنے کھڑے ہو کر سگریٹ نکال کر سلگائی۔ سگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑتے ہوئے وہ رعونت بھرے لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوا، تمھیں اندازہ نہیں ہے میری طاقت کا! میں تمھیں بارسلونا کی گلیوں میں اس طرح رسوا کروں گا کہ تم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گی۔ مجھے اپنی زندگی میں اس طرح کے رویوں کا سامنا نہیں رہا تھا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس پر کیا ردعمل دیا جاتا ہے۔ مجھے لگا کہ اس کے سگریٹ کا دھواں میرے دماغ میں اتر چکا ہے۔ اس غلیظ دھویں کی آڑ لے کر طرح طرح کے خدشات نے میری سوچوں کو گھیرنا شروع کیا۔ میں نے کبھی بہت بہادر ہونے کا دعوٰی نہیں کیا مگر اس روز، اس پل مجھے لگا کہ اِس خوف کے اُس پار اتر کر دیکھنا چاہئے۔ شاید میں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ مجھے اِس خوف کے اِس طرف زندہ رہنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ میں نے اپنے سارے حوصلے جمع کیے اور اس کی اداکاری کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس کی اس دھمکی کو خاطر میں لائے بغیر اسے اس کے حال پر چھوڑا اور وہاں سے اٹھ کر باہر آ گئی۔
تعارف
میرا نام آمنہ عمر ہے میں سابق قونصل جنرل پاکستان (بارسلونا) سپین اور اس وقت سلطنت عمان میں پاکستان کے سفیر عمران علی چوہدری صاحب کی طرف سے مقامی طور پر قونصل خانے میں بھرتی کیے جانے والے پاکستانیوں میں سے ایک ہوں۔ اس وقت مقامی سیاسی سماجی حلقوں کی جانب سے سپین میں بسنے والی پاکستانی خواتین کا کردار محدود تصور کیا جا رہا تھا اور اس حوالے سے پاکستانی مرد حضرات کو تنقید کا سامنا تھا۔ ایک ایسے وقت میں عمران علی چوہدری صاحب نے ہم خواتین کو بھی اپنی اس ٹیم کا حصہ بنا کر نہ صرف ہمیں باعزت روزگار فراہم کیا بلکہ اس ٹیم کی جذبۂ خدمت خلق کے اصولوں پر تربیت کی۔ بدلے میں ہم سب نے بھی اپنی اپنی بھرپور توانائیاں صرف کیں۔ بارسلونا میں مقیم پاکستانیوں کی خدمت کو اپنا اولین فرض سمجھا۔ اس میں کتنی کامیابی ہوئی اس کے متعلق آپ کسی بھی عام پاکستانی سے پوچھ سکتے ہیں الحمد للّٰہ! کوئی شخص عمران چوہدری صاحب اور ان کی تیار کی ہوئی اس ٹیم کے جذبۂ خدمت خلق کا انکار نہیں سکتا۔ دوسری جانب وبا کے فوراً بعد قونصل خانے کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب کے بعد کچھ مہمانوں (مقامی سیاسی رہنماؤں) نے پاکستانی خواتین کے فعال کردار پر نہ صرف خوشگوار حیرت کا اظہار کیا بلکہ ہمارے قونصل خانے کو بہترین قونصل خانہ قرار دیا۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور مناظر بدلتے رہے۔ بدلتے مناظر میں مجھے ایک خوف ناک منظر کا سامنا کرنا پڑا۔ یکایک احساس ہوا کہ ہماری رہنمائی لیے ایک شفیق استاد اور نرم خو والد کی جگہ کسی خوفناک سراب نے لے لی ہے۔ بظاہر خوش نما چشمے کا روپ دھارے یہ سراب ہماری تہذیب، ہمارے رکھ رکھاؤ کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ میرے لئے یہ سخت ترین وقت تھا۔ ہزار وسوسے اور خوف، میرے شب و روز کو اذیت ناک بنائے ہوئے تھے۔ میں نے کئی بار خدا سے دعا مانگی کہ میری آنکھ کھل جائے اور یہ سب ایک خواب نکلے، ایک بھیانک اور بیہودہ خواب۔ مگر مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ایک حقیقت ہے ایک اذیت ناک حقیقت! اس میں میرا قصور نہیں ہے لیکن اس کا سدباب مجھے ہی کرنا ہو گا۔ کیونکہ میں ایک اکیلی عورت نہیں ایک ماں بھی ہوں لہٰذا مجھے کچھ کرنا ہو گا۔ لیکن پھر سوالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔ میرے سامنے مجھے درپیش حالات جیسی درجنوں مثالیں موجود تھیں اور ان سارے ناخوش گوار واقعات پر بھانت بھانت کے تبصرے بھی میرے مشاہدے میں تھے۔ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بالآخر میں نے قانونی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے وکلا کے مشورے سے میڈیا پر اس کیس کے حوالے سے اپنا موقف دینے سے باز رہنے کا فیصلہ کیا۔ میرا خیال تھا کہ عدالت کو اپنا فیصلہ سنانے دیا جائے اس کے بعد کسی کو کوئی ابہام نہیں رہے گا۔
اک اور دریا کا سامنا
میں ابھی ایک فیصلہ کر کے اس اذیت سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی کہ دوسری جانب سپین میں پاکستان کے سفیر شجاعت علی راٹھور صاحب کے بعد وزرات خارجہ کی جانب سے بھیجی جانیوالی تحقیقاتی ٹیم نے بھی ملزم کو قصور وار قرار دیتے ہوئے محکمانہ کاروائی کا سامنا کرنے کے لیے واپس بلوا لیا۔ اصولاً اس سے میرے موقف کو تقویت ملنا چاہیے تھی۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی کہ سپین میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانی کمیونٹی میں پندرہ سے بیس افراد نے نہ صرف قصور وار کے حق میں نعرے لگائے بلکہ الٹا ان مظاہرین نے مجھے بدکردار اور غدار کہا۔ کچھ لوگوں نے فون کر کے سخت سست کہا تو کچھ نے ہم دردی کے نام پر پست الفاظ کا چناؤ کر کے ذہنی اذیت اور روحانی کرب میں اضافہ کیا۔ اس سارے گندے کھیل میں جو شخص بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ وہ بارسلونا کا ایک صحافی مرزا ندیم بیگ ہے۔ مرزا ندیم بیگ نے میری کردار کشی میں ایسے گھٹیا اور غیر اخلاقی الزامات عائد کیے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں سوچ کر بھی گھن آتی ہے۔ میرے والد کا درجہ رکھنے والے دو سنئیرز کے ساتھ قصے گھڑ کر اس شخص نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ اس کے نزدیک کوئی رشتہ محترم نہیں۔ اس شخص کو اقدار کا لحاظ ہے نہ اخلاقیات کا پاس۔ میرا خیال ہے کہ مرزا ندیم بیگ کی ان حرکتوں کو معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ یوں لوگوں کی عزتیں اچھالتا پھرے۔ اس لئے میں اس کے خلاف ہر قانونی راستہ اختیار کروں گی۔ میں اس محاذ پر بھی اپنے حقوق کا بھرپور دفاع کروں گی۔
آخر میں آپ سب مرد حضرات سے ایک گزارش ہے کہ ہم عورتیں بھی آپ کی طرح انسان ہی ہوتی ہیں۔ قدرت کے فیصلوں اور معاشرے کے رواجوں نے ہماری زندگیوں کو آپ کی زندگیوں سے مشکل بنا رکھا ہے۔ اپنے اردگرد کی عورتوں کے لئے آسانیاں پیدا کیجئے ان کی زندگیوں کو بہتر کرنے کی کوشش کیجیے۔ اسی سے صحت مند معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ حساس معاملات پر تبصرہ کرنے سے پہلے خوب غور کیجئے۔ حقائق جاننے کی کوشش کیا کیجیے اور اپنا موقف اچھے الفاظ میں بیان کرنے کوشش کیا کیجیے۔
نوٹ: نیوز ڈپلومیسی اور اس کی پالیسی کا رائٹرکے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Comments are closed.