شہید انصاف جلیل اندرابی

تحریر: ممد شہباز

سر زمین جموں و کشمیر جو پوری دنیا میں اپنی قدرتی حسن وجمال میں کوئی ثانی نہیں رکھتی ،ایسے فرزندوں کو جنم دیا ہے،جنہوں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں،انہی فرزندان وطن میں جناب جلیل اندرابی بھی شامل ہیں،جنہوں نے مختصر عرصے میں خود کو قانوں کے میدان میں ایسا منوالیا کہ غیر بھی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔وہ آسمان افق پر ایسے چھائے کہ کوئی ان کا ہم عصر اور ہم پلہ نہیں ٹھہر سکا اور شاید آنے والے وقت میں بھی نہیں ٹھہر سکے گا۔ آج ان کی شہادت کو 29 برس مکمل ہوگئے۔وہ30 جنوری 1960 میں پلوامہ میں سید غلام قادر اندرابی کے گھر پیدا ہوئے۔انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر وکلالت کو ہی اپنا پیشہ بنایا ۔وہ جہاں ایک پیشہ ور قانون دان تھے لیکن ان کی ایک اور پہنچان بھی تھی،وہ انسانی حقوق اور تحریک آزادی کشمیر کے سرکردہ علمبردار بھی تھے۔یہی ان کا جرم ٹھہرا اور پھر اسی جرم کی پاداش میں انہیں اپنی جوانی کی دہلیز پر ہی زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے۔1989 ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خاتمے کیلئے ایک بھرپور عوامی مزاحمت نے ہر مکتبہ فکر کیساتھ وابستہ افراد کو اپنی جانب مائل کیا۔بلاشبہ اہل کشمیر کے شعبہ قانون کیساتھ وابستہ افراد نے تحریک آزادی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ،جن میں جلیل انداربی سرفہرست ہیں۔انہوں نے اہل کشمیر پر بھارتی مظالم کو للکارا اور ڈنکے کی چوٹ پر بھارتی دہشت گردی کو چلینج کیا۔خاصکر مسلح بھارتی ایجنٹوں جو اخوان کے نام سے جانے جاتے تھے،ان کے مظالم اور دہشت گردی کے خلاف نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی آواز بلند کی ۔وہ 1995 میں جنیوا میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کی دعوت پر اجلاس میں بطور مبصر شریک ہوئے اور پھر مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی افواج اور اس کے مسلح ایجنٹوں کے بدترین مظالم کو دبنگ انداز میں بے نقاب کیا۔ان کے موقف کو انسانی حقوق کونسل میں بھرپور پذیرائی ملی،چونکہ وہ سرزمین جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے تھے،لہذا ان کے خیالات نے بھارت کے ان تمام غلط اور جھوٹ پر مبنی الزامات کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ پاکستان مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال کو بھارت کے خلاف استعمال کرکے پروپیگنڈا کرتا ہے،جلیل انداربی نے جب بھارتی مظالم کے اعداد و شمار اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل اراکین کے سامنے رکھے،تو بھارت کوبڑی خجالت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور انسانی حقوق کونسل اراکین نے بھارت کی خوب درگت کی۔جلیل اندرابی کا یہ انداز بھارت کو بری طرح چب گیا اور پھر انہیں راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 1996 میں انہیں پھر ایکبار جنیوا میں انسانی حقوق کونسل میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی،وہ جنیوا جانے کی تیاری ہی کررہے تھے کہ 8مارچ 1996 میں وہ اپنی اہلیہ رفعت کیساتھ گاڑی میں سفر کررہے تھے،کہ انہیں بھارتی فوج کی 5راشٹریہ رائفلز کے میجر اوتار سنگھ اور اخوانی دہشت گردوں نے اہلیہ کی موجودگی میں گاڑی سے گھسیٹ کر نیچے اتارا اور پھر ایک آٹو رکشا میں نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔ تین ہفتوں بعد یعنی 27 مارچ 1996 میں سرینگر کے کرسو راجباغ علاقے میں دریائے جہلم سے ایک بوری ملی جس میں جناب جلیل اندرابی کی بوسیدہ لاش برآمد کی گئی۔

بھارتی فوج کا مقبوضہ کشمیر میں ظلم جاری
بھارتی فوج کا مقبوضہ کشمیر میں ظلم جاری

ان کے پوسٹ مارٹم میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ان پر دوران حراست بدترین تشدد کیا گیا اور پھر ان کا حراستی قتل کیا گیا۔میجر اوتار سنگھ 1996 میں سرینگر کے نواحی علاقہ راولپورہ میں قائم ایک بھارتی فوجی کیمپ کے انچارج تھے۔ یہ کیمپ ائیرپورٹ کے قریب واقع تھا،جہاں عام کشمیریوں کو گرفتار کرکے یہاں لاکر ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے تھے۔واقفاں حال کا کہنا ہے کہ مذکورہ بھارتی فوجی کیمپ میں مظلوم کشمیریوں کی چیخیں راہ چلتے لوگ اور آس پاس رہنے والے بھی سنتے تھے۔اسی کیمپ میں جلیل اندرابی کی توانا آواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کیا گیا۔ان کے ماورائے عدالت قتل کی خبر جب جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو موصول ہوئی ،تو نہ صرف اس سفاکانہ اقدام کو ماروائے قانون قرار دیا گیا بلکہ اس واقع کی عدالتی تحقیقات کیلئے بھارت پر دباو اور اس کی سخت سرزنش بھی کی گئی،جبکہ بھارتی نمائندوں سے بار بار جلیل انداربی کے حراستی قتل کے سلسلے میں پوچھا جاتا رہا،جن کے پاس سوائے آئیں بائیں اور شائیں کرنے کے کوئی جواب نہیں تھا۔جلیل اندرابی کے اغوا کے سلسلے میں انسانی حقوق کے اداروں نے جب مقدمہ درج کرانا چاہا تو مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے چار روز تک شکایت بھی درج نہیں کی اور پھر عدالتی مداخلت کے بعد گمشدگی کی رپورٹ درج کی گئی۔جلیل اندرابی کے ماورائے عدالت قتل نے پوری دنیا میں انسانی حقوق کے ادراوں اور میڈیا کی توجہ مبذول کرائی۔چونکہ وہ کوئی عام انسان نہیں تھے کہ اس کا قتل خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا۔وہ سرکردہ قانون دان اور انسانی حقوق کے جانے پہنچانے علمبردار تھے۔عدالتی احکامات پر جلیل اندرابی قتل کیس کی تحقیقات پولیس کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم کو سونپی گئی ، تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ جلیل اندرابی اپنی اہلیہ کیساتھ سفید رنگ کی ماروتی کار میں سفر کررہے تھے کہ انہیں بعض فوجی اہلکاروں اور بھارتی فوجیوں کیساتھ کام کرنے والے مسلح افراد( اخوانی) نے روکا اور اغوا کرلیا۔جس کی گواہی ان کی اہلیہ پہلے ہی دے چکی تھیں،کیونکہ اغوا کے وقت وہ گاڑی میں جلیل اندرابی کیساتھ موجود تھیں۔ میجر اوتار سنگھ اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتے دیکھ کر مقبوضہ کشمیرسے ہریانہ فرار ہوگیا،جہاں اسے ریلوے سیکورٹی میں تعینات کیاگیا تھا۔ چنانچہ جب کشمیر پولیس جلیل اندرابی قتل کیس کے سلسلے میں اسے وہاں تلاش کرنے پہنچی تو اسے کینیڈا فرار کرایا گیا جہاں وہ اپنی بیوی کیساتھ رہ رہا تھا۔چند برس گزرنے کے بعد ہی وہاں مقیم کشمیریوں کی شکایت پر جب کینیڈا کی پولیس نے ا سے پوچھ تاچھ کی تو وہ وہاں سے بھی بھاگ کر امریکی ریاست کیلیفورنیا کے سیلما علاقے میں رہنے لگا۔جہاں اس نے ٹرکوں کے ذریعہ مال برداری کا کاروبار شروع کیا۔دن گزرتے گئے اور جلیل اندرابی کا خون میجر اوتار سنگھ کو اندر ہی اندر بے چین اور بے سکون کررہا تھا۔09 جون 2012 میں میجر اوتار سنگھ نے کیلیفورنیا پولیس کو فون پر بتایا کہ اس نے بیوی اور تین بچوں کو ہلاک کیا ہے اور اب وہ اپنے آپ کو ہلاک کررہا ہے،جس کے بعد اس نے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر ڈالا۔یوں 1996 میں جلیل اندرابی کے ماورائے عدالت قتل کا مجرم 16برس بعد اپنے ہی ہاتھوں انجام بد کو پہنچا۔جس سے اگر چہ انصاف کے تقاضے کسی حد تک پورے ہوئے لیکن جلیل اندرابی کے ماورائے عدالت قتل کے پیچھے اصل محرکات کو تلاش کرنا ناگزیر ہے۔ان کا قتل بھارتی حکمرانوں کی ایما پر ہی کرایا گیا،جس سے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی تصدیق شہید جلیل اندرابی کے بھائی اور اس کیس کے وکیل ایڈوکیٹ ارشد اندرابی نے یہ کہہ کر کی ہے کہ شدید الزامات اور مقامی عدالتی احکامات کے باوجود میجر اوتار سنگھ کو سفری دستاویز فراہم اور اسے سزا سے بچانے اوربھارت کا سفاک چہرہ بے نقاب کرنے سے روکنے کیلئے بھارت سے خفیہ طور پر فرارنے کرانے میں مدد دی گئی۔

Restrictions, curfew in Indian Illegal Occupied Kashmir

بلاشبہ جلیل احمد اندرابی کا ماورائے عدالت قتل نام نہاد بھارتی جمہوریت کے ماتھے پر ایسا بدنما دھبہ ہے،جس سے کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا۔دوسرا مجرموں کا کیفر کردارتک نہ پہنچنابھارت کی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ریاستی سرپرستی کا منہ بولتاثبوت بھی ہے۔جلیل احمد اندرابی کا اس کے سوا کیا قصور یا جرم تھا کہ انہوں نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کیخلاف آواز اٹھانے اور انہیں دستاویزی شکل دینے کی کوشش کی۔جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔29 برس گزر چکے ہیں،شہید جلیل احمد اندرابی کے اہلِ خانہ آج بھی انصاف سے محروم ہیں ۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی حکمران اقوام متحدہ کے منظور شدہ حق خودارایت کے مطالبے کی پاداش میں کشمیری عوام کا قتل عام کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں،جس کی باز پرس سے بھارتی حکمران ابھی تک بچے ہوئے ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر پربھارت کے غاصبانہ،ناجائز،غیرقانونی اورغیراخلاقی قبضے کے خاتمے کیلئے اہل کشمیر کی جدوجہد آج بھی جاری و ساری ہے،یقینا جلیل اندرابی اور دیگر ہزاروں افراد کا بہیمانہ قتل کشمیری عوام کی یادوں اور ذہنوں میں نقش ہے۔ا ن قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔جو حق خودارادیت کے حصول کیلئے دی جاچکی ہیں۔یہ قربانیاں اہل کشمیر سے وفا کا بھرپور تقاضا کرتی ہیں۔آج بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں عظیم اور لازوال قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔کوئی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے تو کوئی بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں زندگی کے قیمتی ایام تحریک آزادی کیلئے قربان کررہا ہے۔ جلیل اندرابی کو عالمی سطح پر بعداز شہادت شہید انصاف کا لقب دیا جاچکا ہے ،جس کے وہ حقداراور مستحق تھے۔

Comments are closed.