سمپت پرکاش کشمیری عوام کا بے لوث وکیل

تحریر: محمد شہباز

 اسلام آباد: مقبوضہ جموں وکشمیر پرغاصبانہ بھارتی قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام کی توانا آواز سمپت پرکاش بھی نہ رہے او ریکم جولائی ہفتے کی شام سرینگر کے ہارون علاقے میں اپنی رہائش گاہ پر دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔سمپت پرکاش مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی شدید مخالفت کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔پچاسی سالہ سمپت پرکاش مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے شدید مخالف تھے اورکھل کر اس کا اظہارکررہے تھے۔وہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد اپنے انٹرویوز کی وجہ سے کشمیری عوام کی توجہ کا مرکز بنے۔وہ بدنام زمانہ تہاڑ جیل اور دوسری بھارتی جیلوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والے کشمیری نظر بندوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مذمت میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کے انتقال سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بہت بڑاخلا پیدا ہوا ہے۔اہل کشمیر کی وکالت پر ا ن کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سمپت پرکاش ایک ممتاز اور قابل احترام ٹریڈ یونینسٹ تھے جنہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ٹریڈ یونین سرگرمیاں شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کیلئے وہ جیل بھی گئے۔ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ بہت سرگرم اورکشمیری عوام کے حقوق کیلئے اپنی آواز بلند کررہے تھے۔

سمپت پرکاش مارچ 1937میں جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد( اننت ناگ) میں پیدا ہوئے۔چونکہ ان کا خاندان رعنا واری سرینگر میں مقیم تھا لہذا ان کا گھرانہ بھی بعدازاں اسلام آباد سے سرینگر ہی منتقل ہوا۔وہ مقبوضہ کشمیر کے روایتی اور ثقافتی ماحول میں پلا بڑھا۔جس کے نتیجے میں ان پر کشمیریت کی بھر پور چھاپ تھی،جس کا اظہار زندگی کی آخری سانس تک وہ کرتے رہے اور اس کی بھر پور جھلک بھی نظر آتی تھی۔

سمپت پرکاش سرینگر میں قائم مشہور تعلیمی ادارے ٹنڈیل بسکو سکول میں زیر تعلیم رہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ ان کے کلاس فیلو تھے۔سمپت پرکاش نے قوم پرستی کا گہرا احساس پیدا کیا۔ان کے دل میں جہاں کشمیری پنڈتوں کیلئے لگن اور محبت جاگزیں تھیں ،وہیں انہوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ٹریڈ یونین تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے محنت کشوں کے حقوق اور فلاح وبہبود کیلئے انتھک کوشیش کیں۔جہاں وہ ہمیشہ کام میں بہتری کے حق میں پیش پیش رہے،وہیں منصفانہ اجرت اور مزدور پیشہ طبقے کیلئے سماجی تحفظ کے بہتر اقدامات کی وکلالت کرتے تھے۔1974 میں وہ مرکزی لالبازار کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائسٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ان کی محنت اور مزدور پیشہ طبقات کی فلاح و بہبود نے انہیں نہ صرف مقبوضہ جموں وکشمیر بلکہ بھارتی تجارتی حلقوں میں بڑی عزت واحترام سے نوازا۔

سمپت پرکاش نے اپنی زندگی کے قیمتی دو برس بھارتی جیلوں میں گزارے۔کم اجرت پر حکومت کے خلاف عوامی تحریک کی قیادت کی پاداش میں انہیں 1968 میں پہلی بار گرفتار کیا گیا۔وہ دو برس تک تہاڑ جیل میں مقید ر ہے۔ البتہ انہوں نے اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔1968 میں ہی انہوں نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی،جس میں35 اے کے تحفظ کیلئے بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس ہدایت اللہ کی سربراہی میں سماعت کی تھی۔سمپت پرکاش کا موقف تھا کہ بھارت کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے معاملے میں صرف دفاع،خارجہ اور مواصلات تک رسائی حاصل ہے ،ان تینوں معاملات کے علاوٍہ بھارت کا مقبوضہ جموں وکشمیر کے حوالے سے کوئی عمل دخل نہیں ہے۔یہ کیس سمپت پرکاش بمقابلہ سٹیٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ 35 اے کو ریاستی اسمبلی ہی دیکھ سکتی ہے۔جس کے بعد گیارہ رکنی بینچ کو کیس منتقل کیا گیا۔جس میں یہ کہا گیا کہ تمام قانونی لوازمات کو مدنظر رکھا جائے۔

5 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی پر سمپت پرکاش 1968 میں بھارتی سپریم کورٹ میں دائر اپنے کیس کا بار بار حوالہ دیتے تھے کہ اگر بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق قانونی دفعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرچکی تھی تو 2019 میں ایسا کیونکر ممکن ہوسکتا تھا۔ 5 اگست 2019 میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد جب بھارت اور مودی نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں فوجی محاصرہ مسلط کرکے اہل کشمیر کو اپنے گھروں میں مقید اور سانس لینے پر پابندی عائد کی تھی،تو یہ سمپت پرکاش ہی تھے ،جنہوں نے 23 اگست 2019 میں سب سے پہلے سرینگر میں ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کرکے اہل کشمیر کے جذبات و احساسات کی کھل کر ترجمانی کی ہے۔انہوں نے بھارت اور مودی کو ڈنکے کی چوٹ پر للکارااور اہل کشمیر کو حوصلہ دیا کہ وہ یعنی مسلمان اکیلے اور تنہا نہیں بلکہ کشمیری پندت،جموں کے ڈوگرہ اور لداخ کے بودھ بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔اس کے بعد وہ مسلسل اپنے انٹرویوز میں مودی اور اس کے دوسرے غنڈوں امیت شاہ اور راجناتھ سنگھ کو چلینج کرتے رہے۔وہ اس بات کا بھی برملا اعتراف کرتے تھے کہ کشمیری پنڈت ایک سازش کے تحت وادی کشمیر سے نکالے گئے۔جہاں درجنوں پنڈت مارے گئے لیکن ایک لاکھ کے قریب کشمیری مسلمان بھی تو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔کیا کشمیری مسلمانوں کی کوئی اہمیت نہیں اور انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹنا کیا جائز ہے؟وہ کشمیری پنڈتوں کو کھری کھری سناتے تھے۔سمپت پرکاش نے کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے والی بیہودہ فلم ; دی کشمیر فائلز؛ کے ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری کو نہ صرف اڑے ہاتھوں لیا بلکہ اس فلم کو کشمیری مسلمانوں کی مستقبل میں نسل کشی کا منصوبہ قرار دیا۔جس پر انہیں کچھ مفرور پنڈتوں نے انہیں گالیاں تک بکی تھیں۔وہ نڈر اور بیباک تھے انہوں نے بھی ان بھگوڑے پنڈتوں کو اڑے ہاتھوں لیا،جن میں بطور خاص سندیپ ماوا شامل ہے،جو سرینگر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے صدر دفتر پر حملے اور اس سے بورڈ اتارنے میں ملوث ہے۔

ان کی کشمیری عوام کے ساتھ لازوال محبت اور کشمیریت کی بناء پر ہی مقبوضہ کشمیر کے تمام طبقوں نے ان کی جدائی کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔بلکہ کنٹرول لائن کی دونوں جانب سمپت پرکاش کو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل اور کشمیری عوام کی وکلالت پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے سمپت پرکاش کی موت پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے انتقال کو ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے۔کشمیری سماج کیلئے مرحوم رہنما کی بے لوث خدمات کو سراہتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سمپت پرکاش کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کے نڈر وکیل تھے جنہوں نے غلط کو غلط کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔سمپت پرکاش ایک با کردار انسان اور کشمیری عوام کا سچا دوست اور خیر خواہ تھا جس نے بھارتی احکامات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔وہ بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت تھا اور مسلمانوں اور پنڈتوں کے درمیان پل کا کام کرتا تھا۔ پرکاش نے بھی بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کی حمایت کی ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے وفد نے مرحوم سمپت پرکاش کے گھر جاکر لواحقین کی ڈھارس بندھائی اور آزادی پسند کشمیری عوام کی جانب سے بھی متوفی لیڈر کو خراج عقیدت پیش کیا۔اہل کشمیر کے ساتھ سمپت پرکاش کی بے لوث محبت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے وصیت کررکھی تھی کہ ان کے انتم سنسکار کے بعد ان کی خاک کو دریائے جہلم میں بہایا جائے،جس پر ان کے لواحقین نے پورا پورا عمل کرکے سرزمین کشمیر کے اس بہادر ،نڈر،بیباک اور کشمیریت سے محبت کرنے والے سپوت کو الوداع کیا۔سمپت پرکاش آپ واقعی انسان دوست اور انسانیت پر یقین رکھنے والے تھے۔شکریہ سمپت پرکاش۔

Comments are closed.