برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سوئٹرزلینڈ کے سب سے بڑے شہر زیورخ کے باہر ایک گاؤں میں نصب بِل بورڈ پر ‘انتہا پسندی کو روکیں’ لکھا ہوا ہے۔اس بل بورڈ پر ایک خاتون کی تصویر موجود ہے جس نے ایک سیاہ ہیڈ اسکارف پہنا ہوا ہے اور نقاب کیا ہے۔یہ بِل بورڈ سوئٹزرلینڈ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت سوئس پیپلز پارٹی (ایس وی پی) کی مہم کا حصہ ہے جو چاہتے ہیں کہ ملک میں عوامی مقامات پر نقاب کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔سوئٹزرلینڈ میں نقاب پر پابندی عائد کرنے سے متعلق اس ریفرنڈم پر 7 مارچ بروز اتوار کو ووٹنگ ہوگی۔
اس حوالے سے کی گئی رائے شماری سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر سوئس شہری اس ریفرنڈم کے حق میں ووٹ ڈالیں گے جس کے بعد یہ پابندی ایک قانون کی شکل اختیار کرلے گی۔ایس وی پی سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمنٹ اور ریفرنڈم کمیٹی کے چیئرمین والٹر ووبمین نے کہا کہ ‘سوئٹزرلینڈ میں، ہماری روایت ہے کہ آپ اپنا چہرہ دکھائیں، یہ بنیادی آزادی کی علامت ہے۔ریفرنڈم کی تجویز میں عالمی وبا کورونا وائرس کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے تمام بالغ افراد انفیکشن کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے لیے ماسک پہننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔اس ضمن میں 2017 میں ہونے والے ریفرنڈم کو متحرک کرنے سے متعلق ضروری تعاون حاصل کیا گیا۔
ریفرنڈم میں براہ راست اسلام کا ذکر نہیں کیا گیا اور اس کا مقصد سڑکوں پر پُرتشدد مظاہرین اور تعصب پسند غنڈوں کو ماسک پہننے سے روکنا بھی ہے لیکن پھر بھی مقامی سیاستدان، میڈیا اور دیگر مہمات اسے ریفرنڈم کو ‘برقعہ پابندی’ قرار دے رہے ہیں۔یہ تجویز سوئٹرزلینڈ میں 2009 میں کسی بھی عمارت پر مینار پر پابندی سے متعلق ووٹنگ کے بعد اب اسلام کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنارہی ہے۔سوئٹزرلینڈ کی 2 رکن ریاستوں (کینٹنز) میں پہلے ہی نقاب پر پابندی عائد ہے۔والٹر ووبمین نے کہا کہ ووٹ بذات خود اسلام کے خلاف نہیں لیکن مزید کہا کہ ‘چہرے کو ڈھانپنا انتہا پسند، پولیٹیکل اسلام کی علامت ہے جو یورپ میں بہت زیادہ بڑھ رہا ہے اور اس کی سوئٹزرلینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
Comments are closed.