عالمی سطح پر بھارت کا مکروہ چہرہ مکمل بے نقاب ہو چکا ہے، بین الاقوامی برادری خاص طور پر غیرجانبدار اور آزاد ادارے بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر پر قبضہ ظالمانہ، غاصبانہ اور نوآبادیاتی سوچ قرار دے رہے ہیں
کینیڈا کے فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ ویبی نار کا انعقاد کیا گیا جس میں مقررین کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر پر قبضہ ظالمانہ، غاصبانہ اور نوآبادیاتی سوچ کا آئینہ دار ہے، کشمیرمیں بھارتی فوج کی در اندازی،انسانی حقوق کی پامالی اور وادی میں بھارتی فوج کے مسلسل محاصرے سے ایک سنگین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جس کے حل کے لیے کینیڈین حکومت اور عوام کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور اس انسانی المیے اور قضیے کے جلد از جلد منصفانہ حل کو یقینی بنانے چاہیے۔
اس امر کا اظہار مختلف محققین اورمقررین نے کینیڈین فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے’کشمیر پر ہندوستان کے نو آبادیاتی قبضے پر کینیڈا کی خاموشی‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک ویبی نار سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس سے کینیڈا کی رکن پارلیمنٹ اقرا خالد نے خصوصی طور پر خطاب کیا اور کشمیر کے مسئلہ پر روشنی ڈالی،ویب نار کا اہتمام کینیڈا فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے کیا جسے پچیس دیگر سول سوسائٹی اداروں کا تعاون اور معاونت حاصل تھی۔
ویبی نار سے خطاب کرتے ہوئے اقرا خالد نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ کشمیریوں کے مسائل کو اجاگر کیا ہے اور وہ کشمیر میں مسلسل کرفیو خوراک میں کمی اور ذرائع مواصلات سے محروم عوام کی حالت زار پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ کینیڈا کی حکومت نے بھی خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور گرفتاریوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کینیڈا کے گلوبل آفیسرز کے وزیر نے کینیڈا کشمیریوں سے ملاقات کر کے ان کے اور افسوسناک صورت حال میں پھنسے ان کے عزیز و اقربا کے حالات معلوم کیے ہیں۔انہوں نے عالمی برادری پر مسئلہ کشمیر کے منصفانہ آور اقوام متحدہ کی قراردادوں جن میں سے ایک قرارداد کی تائید کرنے والوں میں کینیڈا بھی شامل تھا، کے مطابق حل کرنے پر زور دیا۔
سنٹر فارلاء جسٹس اینڈ کلچر اوہائیو یونیورسٹی کی ڈائریکٹر اور انتھراپولجی پروفیسر ہالی ڈوچنسکی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، وادی میں بھاری فوج کی در اندازی،انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی فوج کے مسلسل محاصرے سے پیدا شدہ صورت حال کا احاطہ کرتے ہوئے کشمیر کو ایک مسلمہ حل طلب عالمی مسئلہ قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے کشمیریوں پر ظلم و ستم اور ریاستی دہشت گردی کو اپنی حکومتی پالیسیوں کا باقائدہ حصہ بنا رکھا ہے اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے جانب سے بھارتی حکومت کی مذمت کے باوجود کشمیر میں ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں کے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے دورہ پاکستان کے دوران کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کا اعادہ اس امر کا واضح اظہار ہے کہ عالمی برادری اور بالخصوص اقوام متحدہ کے نزدیک مسئلہ کشمیر ایک حقیقی حل طلب مسئلہ ہے ۔انہوں نے کینیڈا کی حکومت اور عوام پر کشمیر کے مظلوم عوام کی مدد و حمایت کے لیے آگے بڑھنے پر زور دیا۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی ساؤتھ ایشین ہسٹری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر مالا ویکا کستوری نے ویبی نار میں شرکت کرتے ہوئے میں بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی اور اس سوچ کے تحت کشمیر پر بھارتی قبضے کا ذکر کیا۔انہوں نے اپنے خطاب میں انتہا پسند بھارتیا جنتا پارٹی کے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سےتاریخی،سماجی و سیاسی تعلق کا ذکر کرتے ہوئے ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے برصغیر پر ہندو غلبے کی خواہش اور اس خواہش کی راہ میں حائل مسلمانوں سے نفرت کا ذکر کیا۔
پروفیسر مالا ویکا کستوری نے کہا کہ ہندو قوم پرست مذہب اسلام کو ہندو تہذیب کی بربادی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور یہی ان کی مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتیا جنتا پارٹی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں سے بھی انتہائی نفرت کا سلوک کرتی ہے اور ہندوستان میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کی سرکاری سطح پر سر پرستی کی جاتی ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں ہندو قوم پرستوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت کا ذکر کیا اور مندر کی جگہ پر بھارتی وزیر اعظم نرندرا مودی کی جانب سے پانچ اگست کو رام مندر کی بنیاد رکھے جانے کو اس نہ ختم ہونے والی نفرت کا آئینہ دار قرار دیا جس کے تحت ایک سال قبل اسی تاریخ کو خطہ کشمیر کو بزور طاقت بھارتی ریاست میں ضم کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ کینیڈین حکومت اور عوام دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علم بردار ہیں تاہم اس کے باوجود کینیڈین حکومت اور کینیڈین میڈیا کی جانب سے کشمیر مسئلہ پر خاموشی حیران کن اورافسوس ناک ہے۔
ویبی نار میں شریک شِو نادار یونیورسٹی کے سنٹر فار پبلک افیئرز اینڈ کریٹیکل تھیوری کے سابق پروفیسر صدیق واحد نے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیرکی علاقائی اور عالمی جہتوں کو اجاگر کیا ۔انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں علاقے میں چین اور بھارت کے درمیان جھڑپیں اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ چین کی حکومت کشمیر پر بھارتی تسلط اور خطے میں جاری بھارتی فوج کی سرگرمیوں کے چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے پر مرتب ہونے والےمنفی اثرات سے نالاں ہے جس سے کینیڈین حکومت جو کہ ماضی میں مسئلہ کشمیر کے باعث علاقے میں کشیدگی کے ممکنہ پھیلاؤ کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر چکی ہے،کو آگاہ اور باخبر رہنا چاہیے اور محض معیشت اور کارپوریٹ مقاصد اور فائدوں سے ہٹ کر مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس کے پائیدار حل کے لیے عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت حکومت نے وادی کشمیر میں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی سیاستدانوں،اساتذہ اور طلبا کو قید کر رکھا ہے اور غیرکشمیری عناصر کو کشمیر میں بسانے اور مقامی زمینوں پر قبضہ جمانے کی پالیسی کو اپنا شعار بنا لیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف پالیسیوں اور خطے میں لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے لداخ کی آبادی جس نے ایک سال قبل کشمیر کو بھارتی ریاست کا حصہ بنائے جانے پر خوشی کا اظہار کیا تھا، نے صرف ایک سال کے اندر اپنی سوچ کو بدلتے ہوئے کشمیر میں بھارتی دراندازی اور ظالمانہ پالیسیوں سے اعراض کا اظہار کیا ہے۔
ویبی نار سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی آف لندن اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی فارغ التحصیل ،ماہر قانون،معلم اور مصنف عزیزہ کانجی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر میں ظلم و ستم،خواتین کی آبروریزی،اغوا اورقتل کی پالیسی کشمیری عوام کی ہمت و حوصلہ کو توڑنے کی کوشش قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ کینیڈین حکومت اور کینیڈین میڈیا جان بوجھ کر کشمیروں پر ظم و ستم پر آواز اٹھانے سے پہلو تہی کرتا رہا ہے جس کے وجہ ان دونوں ملکوں کے معاشی و تجارتی مفادات ہیں۔
ویبی نار میں حصہ لیتے ہوئے کینیڈا میں کشمیر لا اینڈ جسٹس پراجیکٹ کے شریک بانی اور ہارورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل عمران میر نے کشمیر مسئلہ کےتاریخی ماخذ اور کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی پر روشنی ڈالی۔ویبی نار کے آغاز پر ایک قرار داد پیش کی گئی جس میں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی زیر قیادت لبرل گورنمنٹ کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کی مذمت پر زور دیا گیا۔
Comments are closed.