دنیا بھر میں ہر سال اہم، حساس معاملات، سنگین مسائل سے آگاہی اور پیش بندیوں کی غرض سے عالمی سطح پردن منائے جاتے ہیں، اس مناسبت سے جلسے، جلوس،ریلیوں کے انعقاد بھی ہوتے ہیں۔ آٹھ مارچ بھی بین الاقوامی سطح پرمنایا جانے والے ایسا ہی ایک عالمی دن ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے۔
یوم خواتین کو لے کر اس وقت پاکستان بھر میں ایک بحث جاری ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ 24 اکتوبر کو پولیو کے خاتمے کیلئے کوششیں اور عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے، یکم دسمبر کو ایڈز کی خطرناک بیماری سے بچاؤ کی ترغیب دی جاتی ہے، اسی طرح 3 مئی کو میڈیا کی آزادی کا عالمی دن منا کر صحافیوں کہ حقوق اجاگر کئے جاتے ہیں۔
ایسے ہی اگر خواتین کے عالمی دن پر حقوق نسواں اور خواتین کی عزت پہ بات کی جائے، عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے ریلیاں نکالی جائیں تو کیا ممانعت ہے؟ بظاہر تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن پاکستان میں اس دن کی مناسبت سے ہونے والے عورت مارچ کو اتنی تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟
پاکستان میں اگر اس مارچ کے منتظمین اور حمایتی حلقوں پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص طبقہ ہے جس کے نظریات پاکستان کی مقامی روایات سے نا صرف متصادم ہیں بلکہ اُن کے نزدیک ہر معاشرتی برائی کی جڑ مرد ہے۔خواتین کے حقوق کے نام پر متنازعہ تحریکیں چلانے والے نام نہاد سیکولر ایک مخصوص ایجنڈے کی ترویج کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ طبقہ چاہتا ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے پاکستان کیا پورا خطہ سرخ ہوجائے، یہ طبقہ 70 سال سے سبز (پاکستانی) نہیں ہو سکا۔
انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیداروں اور ان کے بیرونی آقاؤں کی بات کی جائے تو ان کی بصارت، گویائی اور سماعت مخصوص قسم کی آوازیں سننے اور مطلب کی چیزیں دیکھنے کے سوا کچھ کرنے سے قاصر ہیں،انہیں کشمیر، فلسطین، میانمار، بھارت میں ہونے والے مظالم نظر آتے ہیں، نا ہی بے آبرو ہونے والی مسلمان خواتین کی چیخیں سنائی دیتی ہیں یہاں تک کے بھارتی درندوں کی حیوانیت کا شکار ہونے والی 8 سالہ معصوم آصفہ کو زیادتی کے بعد قتل کردینے پر بھی ان کی زبانیں گنگ ہیں۔
اس قبیل کے افراد بین الاقوامی فنڈز کیلئے پاکستان کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جس میں ہرعورت کو زنجیروں میں جکڑا ہوا اور مرد کو ہنٹر (چابک) اٹھائے دکھایا گیا ہے، اس گروہ کی ایک صف زنا بالرضا (باہمی رضا مندی) کو جائز گردانتے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کا قانون پاکستان میں رائج کروانے کا خواب دیکھتے آ رہے ہیں۔ اس کے بعد ان کا اگلا ممکنہ مطالبہ خواتین کے اسقاط حمل کو قانونی قرار دینا ہو سکتا ہے۔
معاشرتی برائیوں کو کسی ایک خاص جنس سے منسلک کرنا کس حد تک جائز ہے؟ اگر آپ دو چار واقعات کی بنیاد پرمخصوص پلیدگی ایک خاص جنس کہ ساتھ جوڑتے ہیں تو میرے خیال میں آپ غلط ہیں کیونکہ اچھائی، برائی، پیار،نفرت، وفا، بے وفائی، پاکیزگی اور بدکاری کا فعل کسی جنس سے نہیں بلکہ انسان سے منسوب ہے۔ انسان مرد بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی۔۔۔۔مرد اور عورت دونوں صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔۔.
اگر ہماری پیاری بیٹی زینب کو ایک مرد نے درندگی کا نشانہ بنایا تو کیا سارے مرد حیوانیت اور درندگی میں مبتلا ہیں؟ اگر اصول یہ ہے تو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسکول جانے والے لڑکوں میں آپ کو ایسے بھی کیس ملیں گے جہاں کچھ استانیاں بچے کی معصومیت کو استعمال کرتے ہوئے جنسی تسکین کا بند کمروں میں فائدہ اٹھاتی ہیں۔
ہزاروں ایسے کیسز بھی ملیں گے جہان بچوں کو بچپن میں خواتین رشتہ داروں اور استانیوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے ایسے میں کیا تمام خواتین ٹیچرز یا رشتہ داروں کو قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ بعض خواتین اپنے شوہروں کی غیر موجودگی میں غیرمردوں کے ساتھ تعلقات استوار کر لیتی ہیں ایسے کئی واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں کہ بیوی نے آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کر دیا، یا گھر سے بھاگ گئی، تو کیا ہر شادی شدہ عورت کو بدچلن کہا جا سکتا ہے۔بالکل بھی نہیں۔
یہاں یہ بات سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ہر عورت بدکردار، بدچلن یا بے وفا نہیں ہوتی اسی طرح ہر مرد بچیوں کا ریپ یا خواتین پر تشدد نہیں کرتا، چند درندہ صفت افراد ہر معاشرے میں ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنی جنس بلکہ پورے معاشرے کے لئے ناسور ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے کسی جنس یا معاشرے پر انگلی اٹھانا کہاں کا انصاف ہے۔دراصل معاشرتی برائیوں کے دیمک کو پروان چڑھانے کے پیچھے جاہلیت ہے، جس سے صرف تعلیم و عوامی شعور کے ذریعے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
معاشرے میں پنپتی برائیوں پر ملک، آئین یا جنس کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ اصل قصور وار مرد یا عورت دونوں ہو سکتے ہیں، اگر جنس کو معاشرتی برائی کی چھلنی سے چھاننے بیٹھیں گیں تو مرد اور عورت دونوں کی تعداد ملتی جلتی ہو گی اور اس بنیاد پر ہر جگہ جنگ چھڑ سکتی ہے۔
اگر حقیقی معنوں میں پاکستان سے معاشرتی برائیوں کو ختم کرنا ہے جن سے خواتین متاثر ہو رہی ہیں تو یہ کام متنازعہ نعروں، نفرت انگیز تقریروں، مردوں کو بدنام کرنے کیلئے تحریکیں چلانے اور مزید خرافات عام کرنے سے کام نہیں ہوگا بلکہ یہ معاشرے میں مزید بگاڑ اور نفرت کا موجب بنیں گے۔
نیلسن منڈیلا کے بقول معاشرے بدلنے کے لئے تعلیم سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہے، ہمیں بھی جنس مخالف نفرت انگیز ٹاک شوز، متنازعہ پوسٹرز کی بجائے تعلیم کہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہو گا۔ خواتین کہ اس عالمی دن کہ موقع پرمذہبی شدت پسندگروہوں اور فاشسٹ لبرلز کے نعروں کو رد کرتے ہوئے امن اور فروغ تعلیم کا پرچار کریں، مرد اور خواتین کو باشعور بنانے کی بات کریں،اسی طریقے سے ہم معاشرتی برائیوں کو دفن کر سکتے ہیں۔
Comments are closed.