مسلم اور یورپی ممالک کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں غزہ میں جاری مسلح تنازعے کے خاتمے کے طریقوں پر بات چیت کے بعد بین الاقوامی برادری نے زور دیا ہے کہ اسرائیلی۔ فلسطینی تنازعے کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل ناگزیر ہے۔
ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں جمعے کے روز منعقد ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس میں متعدد مسلم اور یورپی ممالک کے سفارت کاروں نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے سیر حاصل گفتگو کی۔
اس دوران اتفاق کیا گیا کہ دو ریاستی حل ہی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا ایک پائیدار حل ہے۔ اس میٹنگ کے شرکاء اس بات پر متفق ہوئے کہ اسرائیلی۔ فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل پر عمل درآمد کا نظام الاوقات وضع کیا جائے۔
ہسپانوی وزیر خارجہ خوزے مانوئیل البارایس نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک اور کوشش کے سلسلے میں یہ ملاقات کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تشدد کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جانا مقصود ہے اور اس تناظر میں دو ریاستی حل پر عمل درآمد ہی واحد راستہ ہے۔
اس میٹنگ میں ناروے اور سلووینیہ کے وزرائے خارجہ سمیت یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزیپ بوریل، فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد مصطفیٰ اور غزہ کے لیے عرب اسلامی رابطہ گروپ کے ارکان بھی شرکت کر رہے ہیں، جن میں مصر، سعودی عرب، قطر، اردن، انڈونیشیا، نائیجیریا اور ترکی بھی شامل ہیں۔
اٹھائیس مئی کو اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ایک ایسی متحدہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا، جس میں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارہ شامل ہیں اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہے۔ یوں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 146 اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔
ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے اس خطے میں دو خود مختار ریاستوں کے بقائے باہمی کو خطے میں امن کا واحد قابل عمل راستہ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس طرح کا دو ریاستی حل سن 1991 کی میڈرڈ کانفرنس اور سن 1993-95 کے اوسلو معاہدے میں طے پایا تھا لیکن امن عمل برسوں سے تعطل کا شکار ہے۔
تاہم غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کے مابین گزشتہ گیارہ ماہ سے جاری مسلح تنازعے اور مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے پرامن حل کی تلاش کے لیے کوششوں پر دوبارہ توجہ مرکوز ہوئی ہے۔
Comments are closed.