امریکہ سےعمران خان کی رہائی کی درخواست ملکی و ذاتی وقار کیخلاف ہے، عارف علوی

امریکہ کےدورے پر موجود سابق صدرڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں عمران خان کو رہا کروانے کی کوئی درخواست نہیں کی کیونکہ ایسا کرنا پاکستان اور انکے ذاتی وقار کے خلاف ہے۔

سابق صدر پاکستان اور تحریک انصاف کے سینئر رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے نیوجرسی میں پارٹی رہنما نوید وڑائچ کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے ایک سوال کے جواب میں واضح کہا کہ وہ مستقبل میں کسی عہدے کے خواہش مند نہیں ہیں، انہوں نے قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انسان ہر وقت دنیاوی بھاگ دوڑ میں لگا رہتا ہے، اسے قبر کی بھی فکر ہونی چاہیے، اس لئے مستقبل میں کوئی عہدہ نہیں لینا چاہتا۔

امریکی سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے حوالے سے سابق صدر عارف علوی نے کہا کہ ان کی جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں انہوں نے امریکی کانگریس کے اراکین اور دیگر رہنماؤں سے عمران خان کی رہائی کے لئے کردار ادا کرنے سے متعلق کوئی بات نہیں کی، سابق صدر نے کہا کہ وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان ملاقاتوں میں امریکی رہنماؤں سے کسی چیز کا مطالبہ یا درخواست کرنا ملکی اور ان کے ذاتی وقار کو زیب نہیں دیتا۔

اس موقع پر انہوں نے سائفر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ” 23 مارچ کو میں اور عمران خان یوم پاکستان پریڈ کے موقع پر سلامی کے چبوترے پر بیٹھے تھے تو اس وقت عمران خان نے انہیں بتایا کہ ان کے پاس ایک خط آیا ہے جس میں  کہا گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ہٹاؤ۔۔۔ جس پر میں نے کہا کہ خان صاحب یہ تو بڑا خطرناک ہے، جس کے بعد 10 اپریل کو سارا قصہ ہی ختم ہو گیا۔”

عارف علوی نے کہا کہ یہ سب کچھ انٹرفیئر (مداخلت) کی وجہ سے ہوا۔۔ ” میں آپ اور پاکستانی عوام کی جانب سے منتخب کیا گیا صدر پاکستان یہاں آ کر ان (امریکی حکام ، رہنماوں) سے کیوں کہوں کہ اسے ”ان ڈو” کرو۔۔۔۔ میں ان سے کیوں مانگو? ایسا کرنا میرے وقار اور عزت کے خلاف ہے میں خود اسے ٹھیک کیوں نہ کروں، میں یہاں آ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ (امریکا) پشت پناہی مت کرو یہ میرا حق ہے”۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے عارف علوی نے کہا کہ وہ یہاں آکر آزادی صحافت، انسانی حقوق کی بات کرسکتا ہوں جس کی آئین پاکستان اور اقوام متحدہ کا چارٹر انہیں اجازت دیتا ہے اور تیسرا گولی نہ چلائیں، تشدد کا استعمال رکوائیں۔ سابق صدر نے کہا کہ اگر پاکستان میں صحافت آزاد ہو اور تشدد کو روک دیں تو دو ماہ میں تبدیلی آجائے گی۔

Comments are closed.