قومی احتساب بیورو گورننس کے ساتھ تباہ کن طریقے سے کھیل رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو گورننس کے ساتھ تباہ کن طریقے سے کھیل رہا ہے، نیب نے تمام کیسز میں وزیروں کو ملزم بنایا ہوا ہے، نیب کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے ہر ایکشن سے گورننس پر کیا فرق پڑتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے نندی پور ریفرنس میں سابق وزیر قانون بابر اعوان اور جسٹس (ر) ریاض کیانی کی بریت کے خلاف نیب اپیلوں پر سماعت کی۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نندی پور ریفرنس میں صرف اور صرف تاخیر ہی واحد جرم ہے؟ وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ  جی، میرے موکل سابق سیکرٹری قانون مسعود چشتی ایک دھیلے کے روادار نہیں لیکن انہیں ملزم نامزد کر دیا گیا، نندی پور منصوبہ اُس وقت کے وزیراعظم اور صدر کے نوٹس میں تھا، نہ صدر اور نہ ہی وزیراعظم نے اس پر کوئی اعتراض کیا تھا۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ نندی پور منصوبے میں کیا جرم تھا آپ بھی بتائیں۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب دیا کہ اس کیس میں فرد جرم بھی عائد ہو چکی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک غیر ملکی کمپنی کیساتھ معاہدے پرنندی پور ریفرنس بنایا گیا، کیا اُس غیر ملکی کمپنی کو بتایا گیا تھا کہ اس کی کلیئرنس نہیں لی گئی؟ کیا ایسی کوئی کلیئرنس لینے کی ضرورت تھی؟

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب لا ڈویژن منظوری پہلے ہی دے چکی تھی؟ بادی النظر میں تو یہ کیس بنتا ہی نہیں دکھائی دیتا، اگر جرم ہی نہیں تو پھر یہ ریفرنس بنا کر ریاست کے لیے شرمندگی کا باعث نہیں بنایا گیا ؟ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ  ڈاکومنٹ دکھائیں کہ سیکرٹری قانون نے قانون کی کیا خلاف ورزی کی۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں کہ وزارت قانون نے معاہدوں کے بعد قانونی رائے دینے سے انکار کیا، آپ چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے کے بعد وزارت قانون سے رائے مانگ رہے تھے، اگر آپ اس طرح کریں گے تو آپ کے پاس فارن انویسٹر کیوں آئے گا؟ یہ بتائیں کہ قانونی رائے میں تاخیر کر کے سیکرٹری قانون کو کیا فائدہ ہوا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جب معاہدہ ہو چکا تو پھر وزارت قانون سے منظوری کی ضرورت ہی کیا بچی،  جب وزارت قانون نے اپنی قانونی رائے نہیں دی تو اس سے قومی خزانے کو نقصان ہوا، وزارت خزانہ یا پانی و بجلی نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا تو نیب کا تفتیشی پھر کون ہوتا ہے کہنے والا کہ رائے ضروری تھی ،  نیب بیوروکریٹ کا فیصلے لینے کا اختیار واپس لینا چاہتا ہے

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس وقت  سارے مسائل پیدا ہی اسی وجہ سے ہو رہے ہیں، ریکوڈک میں ہمیں کتنا نقصان ہوا ہے؟ اس طرف نہ جائیں، نیب کو دس چیزیں پہلے سوچ کے آگے چلنا چاہیے۔سابق سیکرٹری قانون لاہور سے آتے ہیں اور احتساب عدالت سے تاریخ لے کر واپس چلے جاتے ہیں، ان کا کیا شوق تھا سیکرٹری بننے کا، پتہ نہیں باقی بیوروکریٹس کا کام کیسے ہو رہا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا کام کرپشن پکڑنا ہے لیکن آپ اس سے ہٹ کر پروسیجرل معاملات میں چلے گئے، اگر وہ رائے دے دیتے تو پھر آپ کہتے کہ یہ رائے دی کیوں؟ اسی لیے تو آج گورننس رکی ہوئی ہے، اس طرح کی آپ کی مداخلت ہے تو پھر گورننس تو نہیں چلے گی، اس طرح کے ماحول میں تو کوئی بیوروکریٹ رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے ان لوگوں کو بھی ملزم بنایا ہے جن کو ملزم نہیں بنایا جانا چاہیے تھا، لوگوں کی سوسائٹی میں عزتیں خراب ہو جاتی ہیں، نیب گورننس کے ساتھ تباہ کن طریقے سے کھیل رہا ہے، یہ نیب کا لیول نہیں، اینٹی کرپشن والے بھی ایسا نہ کریں، نیب کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے ہر ایکشن سے گورننس پر کیا فرق پڑتا ہے۔عدالت نے  ڈاکٹر بابر اعوان اور جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کے خلاف نیب اپیل پر بھی فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

Comments are closed.