رانا شمیم کااصلی بیان حلفی اٹارنی جنرل کے پیش ہونے تک سربمہررکھنے کا فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا اصلی بیان حلفی اٹارنی جنرل کے پیش ہونے تک سربمہر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ یہ توہین عدالت کا کیس نہیں، اوپن انکوائری ہے، اخبار میں چھپنا ثانوی ہے۔ جہاں بنیادی حقوق کا معاملہ آئے وہاں اظہار رائے کا استثنی ٰختم ہوجاتا ہے۔ہمیں مطمئن کر پائے کہ توہین عدالت نہیں ہوئی تو کیس خارج کر دیں گے۔

 سماعت کے موقع پر پی ایف یو جے، فیصل صدیقی اور ریما عمر نے بطور عدالتی معاونین رپورٹس جمع کرائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کاآغا خان ہسپتال میں آپریشن ہوا ہے ،ا س لیے وہ جمعرات کے بعد پیش ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ برطانیہ سے رانا شمیم کا بیان حلفی سربمہر لفافے میں موصول ہوگیاہے جسے اضافی سیل لگا کر محفوظ کیا گیا۔وکیل لطیف آفریدی نے کہا رانا شمیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیان حلفی کسی کو اشاعت کے لیے نہیں دیا۔چیف جسٹس نے کہا آپ کے کلائنٹ نے بیان حلفی میں تاثر دیا کہ ہائی کورٹ کمپرومائزڈ ہے۔ عدالت صحافی سے اس کا سورس نہیں پوچھے گی، اخبار میں اشاعت ثانوی معاملہ ہے۔ کیا اس کورٹ کے کسی جج پر کوئی انگلی اٹھائی جا سکتی ہے؟ رانا شمیم نے یہ بھی تاثر دیا کہ استحقاقی دستاویز نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو کیا برطانیہ میں ان کے خلاف کوئی کارروائی شروع کی گئی؟

چیف جسٹس نے کہا عدالت کو تنقید سے گھبراہٹ بالکل نہیں ،تین سال بعد ایک بیان حلفی دے کر اس کورٹ کی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 19 کو دیکھ کر ہی آگے بڑھیں گے۔ جہاں بنیادی حقوق کا معاملہ آئے وہاں اظہار رائے کا استثنی ٰختم ہوجاتا ہے۔ اس عدالت پر عوام کے اعتبار کو توڑنا عوام کے بنیادی حقوق سے جڑا ہے۔ ابھی ہم نے فرد جرم عائد کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ پی ایف یو جے کے ناصر زیدی نے بین الاقوامی عدالتوں کے حوالہ جات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی پر توہین عدالت نہیں لگ سکتی۔ عدالت نے سماعت 28 جنوری تک ملتوی کر دی۔

Comments are closed.