تہران: ایران اور امریکہ کے درمیان تکنیکی مذاکرات کا ایک نیا دور آئندہ دو دنوں میں سلطنت عمان میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ یہ مذاکرات روم اور مسقط میں ہونے والے پچھلے ادوار کے تسلسل میں ہیں، جن کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی اور سفارتی روابط کی بحالی ہے۔
تہران نے سفارتی ذرائع سے بات چیت کو آگے بڑھانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی، جو ان مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، نے زور دے کر کہا کہ ایران سفارتی راستے کو ترجیح دیتا ہے، تاہم تمام آپشنز کے لیے بھی تیار ہے۔
انہوں نے روسی نشریاتی ادارے رشیا ٹوڈے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ “ایران نے پہلے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ طاقت اور دباؤ کی زبان کے آگے جھکنے والا نہیں ہے۔ ہم نے ہمیشہ دھمکیوں کا مقابلہ کیا ہے اور کریں گے۔”
عباس عراقچی نے مزید کہا، “امریکیوں نے ایک بار پھر ہمارے عزم اور ارادے کو آزمانے کی کوشش کی ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے نتائج دیکھ لیے ہوں گے۔”
انہوں نے نئی امریکی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو جاری رکھا ہے اور فوجی دھمکیوں کو ایک نئی شکل دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ایران کے ارد گرد اپنے فوجی دستوں کو دوبارہ تعینات کیا ہے، تاہم ایران اپنے اصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔
وزیر خارجہ نے فوجی دھمکیوں کے امکان کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “دنیا اور امریکہ اب یہ جان چکے ہیں کہ ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں میں خود کفیل اور ماہر ہے۔”
یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب عالمی سطح پر خطے کی صورتحال نازک ہے اور کئی ممالک ان مذاکرات کو امن کی طرف ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں۔
Comments are closed.