اسلام آباد۔ چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ اگر معاشرے میں جانوروں سے ہمدردی ہو تو بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیس نہ ہوں۔جس معاشرے میں جان کی قیمت نہ ہو وہاں اس طرح کے جرائم ہوتے ہیں۔ جو زندگی کی قدر کرے گا وہ جانور کو بھی کچھ نہیں کہے گا۔جو جانور کا خیال رکھے گا وہ بچے اور خواتین کا بھی خیال رکھے گا اور گھناؤنا جرم نہیں کرے گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اس معاشرے میں مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔حضور پاک صلی اللہ وآلہ وسلم کے فرمان سے ہی لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔جانوروں کے لئے جو بہتر ہے وہ کریں اور انکو اس ٹارچر سے باہر نکالیں۔بین الاقوامی سطح پر یہ سب کچھ پاکستان کے بہتر امیج کی نشاندہی کر رہا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جو جانور اللہ پاک نے اونچے پہاڑوں میں رہنے کے لئے بنایا,اسے ہم نے یہاں لا کر بند کر دیا ہے۔اب بہت ترقی ہو چکی چڑیا گھر میں جانور دکھانے کی بجائے بچوں کو تھیٹر میں جانوروں کے ڈرامے دکھائیں۔یہ عدالت فیصلہ دے چکی کہ اب چڑیا گھر ہو ہی نہیں سکتا۔
Comments are closed.