اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دیں، جس کے نتیجے میں غزہ ایک بار پھر شدید بمباری اور زمینی حملوں کی زد میں ہے۔ یہ حملے اس وقت شروع کیے گئے جب جنوری میں ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی، جسے پہلے ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا تھا۔
انروا کی تشویشناک رپورٹ: بے گھری کی نئی لہر
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کے مطابق، حالیہ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ایک نئی نقل مکانی کی لہر اٹھی ہے جس سے کم از کم 142,000 افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ادارے نے مزید بتایا کہ مجموعی طور پر اب تک تقریباً 19 ملین افراد، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے، زبردستی اپنے گھروں سے بے دخل کیے جا چکے ہیں۔
اسرائیلی حکومت کا مؤقف: یرغمالیوں کی بازیابی مقصد
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کارروائیاں حماس کی طرف سے مذاکرات کے دوران دی گئی تجاویز کو مسترد کرنے کے جواب میں کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق ان حملوں کا مقصد تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرانا ہے جو اکتوبر 2023 کے حملوں میں پکڑے گئے تھے۔
حماس کا ردعمل: اسرائیل اور امریکہ ذمہ دار
فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیل اور امریکہ کو جنگ بندی کی خلاف ورزی اور تازہ حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی افواج جان بوجھ کر شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ حماس کے مطابق اسرائیل جنگ بندی کو بطور ہتھیار استعمال کر کے غزہ کے شہریوں کو مزید کمزور کر رہا ہے۔
انسانی بحران: بنیادی سہولیات کا فقدان
غزہ کی پٹی میں جاری بحران نے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ خوراک، پانی، ادویات اور پناہ گاہوں کی شدید قلت ہے۔ ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسپتال شدید دباؤ میں ہیں اور ایندھن کی کمی نے بجلی کی فراہمی کو بھی محدود کر دیا ہے۔
عالمی برادری کی خاموشی پر سوالات
اسرائیلی حملوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی دیگر ایجنسیوں نے فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کی اپیل کی ہے، مگر اب تک کوئی بڑا سفارتی دباؤ نظر نہیں آتا۔
Comments are closed.