اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو واشنگٹن پہنچ گئے ہیں جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اہم ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب امریکہ نے اپنے “یومِ رہائی” کے موقع پر متعدد ممالک پر غیر متوقع طور پر بلند ٹیرف (محصولات) نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ نیتن یاہو امریکی صدر سے ملاقات کرنے والے ان اقدامات کے بعد پہلے غیر ملکی رہنما بن گئے ہیں۔
ٹیرف کا پس منظر اور اسرائیلی موقف
امریکی صدر کے حالیہ اعلان کے مطابق اسرائیلی مصنوعات پر 17 فیصد کا ٹیرف عائد کیا جا رہا ہے، جس کا اطلاق آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہے۔ نیتن یاہو اس ملاقات کے ذریعے صدر ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ یا تو یہ فیصلہ واپس لیا جائے یا کم از کم اسرائیلی درآمدات کے لیے نرمی اختیار کی جائے۔
بوڈاپیسٹ سے روانگی سے قبل نیتن یاہو نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ معاملہ اسرائیل کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے۔ انہوں نے کہا،
“میں صدر ٹرمپ سے ایک ایسے معاملے پر ملاقات کرنے والا اولین غیر ملکی رہنما ہوں جو اسرائیل کے مستقبل کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ملاقات ہمارے ذاتی اور قومی تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔”
ایران کا مسئلہ: ایجنڈے کا دوسرا اہم نکتہ
اس ملاقات میں ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی بھی ایجنڈے کا اہم حصہ ہو گی۔ اسرائیل ایران کو ایک علاقائی خطرہ سمجھتا ہے اور امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کرنے کے حق میں رہا ہے۔ توقع ہے کہ نیتن یاہو اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے ایران پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکی پالیسی میں تغیر اور عالمی ردعمل
صدر ٹرمپ کی جانب سے بلند ٹیرف کا فیصلہ دنیا بھر میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف عالمی تجارتی تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ امریکہ کے اتحادی ممالک کے ساتھ بھی تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اسرائیل، جو کہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، اس فیصلے سے خاصا متاثر ہو سکتا ہے، خصوصاً ہائی ٹیک اور زرعی برآمدات کے شعبے۔
نیتن یاہو کا سفارتی چیلنج
نیتن یاہو کے لیے یہ ملاقات سفارتی لحاظ سے ایک نازک موقع ہے، کیونکہ انہیں ایک طرف امریکی فیصلوں کی مخالفت بھی کرنی ہے اور دوسری طرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی گرمجوشی کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ ان کی کوشش ہو گی کہ وہ ٹرمپ سے قریبی ذاتی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے اسرائیل کے مفادات کا دفاع کر سکیں۔
ممکنہ نتائج
اگر نیتن یاہو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ ان کی سفارتی کامیابی تصور کی جائے گی۔ بصورت دیگر، اسرائیل کو نہ صرف اقتصادی نقصان کا سامنا ہو گا بلکہ امریکی تجارتی پالیسیوں پر انحصار بھی دوبارہ زیر بحث آئے گا۔
Comments are closed.