اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے سانحہ اے پی ایس کیس کے ذمہ داروں اور غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرا دی۔ عدالت نے کہاکہ آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کر رہے ہیں ؟ عدالت نے پیشرفت رپورٹ وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ چار ہفتے میں جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔جسٹس قاضی آمین نے کہا، مسٹر وزیر اعظم ،آپ مجرمان کو مذاکرات کیلئے میز پر لے آئے ، کیا ہم ایک بار پھر سرنڈر ڈاکیومنٹ سائن کرنے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ۔ عدالتی حکم پر وزیراعظم عمران خان عدالت میں پیش ہوئے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟ وزیر اعظم نے کہاکہ آپ حکم کریں ایکشن لیں۔ سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ جی خان صاحب، بتائیں اب تک کیا کارروائی ہوئی ؟ وزیراعظم نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول بہت دردناک تھا، سانحہ کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا، 2014 میں جب سانحہ ہوا خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت تھی، خود پشاور پہنچا اور جو اقدامات ہو سکتے تھے کیے؟عدالت نے کہا کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں،مجرموں کو کٹہرے میں لانے کیلئے کیا کیا؟
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ مسٹر پرائم منسٹر، ہمار اکوئی چھوٹا ملک نہیں ، دنیا کی چھٹی بڑی آرمی ہماری ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کر رہے ہیں ؟ آپ مجرمان کو مذاکرات کیلئے میز پر لے آئے ، کیا ہم ایک بار پھر سرنڈر ڈاکیومنٹ سائن کرنے جا رہے ہیں، 9 پولیس اہلکار شہید ہوئے،کیاکارروائی ہوئی ، وزیر اعظم نے کہاکہ کوئی بھی قانون سے بڑا نہیں، جو بھی کارروائی بنتی ہے، کی جائے گی، میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ والدین چاہتے ہیں اس وقت کے اعلیٰ حکام کیخلاف کارروائی ہو۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت شہداء کے والدین کا موقف بھی سنے، جس کی بھی غفلت ثابت ہو اس کیخلاف کارروائی کی جائے، تعین کیا جائے کہ کس کی کیا کوتاہی تھی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے آئین کی کتاب اٹھالی اور ریمارکس دیئے کہ یہ آئین کی کتاب ہے اور ہر شہری کو سکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مشرف دور میں مخالفت کی تھی کہ امریکی جنگ میں نہیں کودنا چاہیئے۔ چیف جسٹس کہا کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت آسان تھا کہ نواز شریف اور چوہدری نثار کیخلاف مقدمہ درج کروا دیتے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے مزید وقت کی استدعا کی ، عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا قبول کرتے ہوئے پیشرفت رپورٹ وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ چار ہفتے میں جمع کرانے ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔۔
Comments are closed.