صدر ٹرمپ ایران سے براہِ راست مذاکرات کے خواہاں، جوہری معاہدے کی بحالی پر زور

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ براہِ راست بات چیت کو ترجیح دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طریقہ زیادہ تیز اور مؤثر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ براہِ راست مذاکرات سے دونوں فریق ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ بات چیت کسی تیسرے فریق یعنی مصالحت کار کے ذریعے کی جائے۔

ایران کے رویے میں ممکنہ تبدیلی کا عندیہ

صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں عندیہ دیا کہ ایران نے ابتدائی طور پر مصالحت کاروں کے ذریعے بات چیت پر زور دیا تھا، تاہم اب ممکن ہے کہ تہران براہِ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ براہِ راست مکالمہ نہ صرف مؤثر ہوتا ہے بلکہ اس سے شفافیت اور اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے۔

ایران کی پہلے کی پوزیشن

یاد رہے کہ ایران نے ماضی میں امریکہ سے براہِ راست مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے صرف بالواسطہ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ تاہم حالیہ عالمی حالات، جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششیں، اور معاشی دباؤ ایران کے موقف میں لچک کا سبب بن سکتے ہیں۔

ٹرمپ کا سپریم لیڈر کو خط اور معاہدے کی خواہش

مارچ 2025 کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں جوہری معاہدے پر مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ دو ہی راستے ہیں؛ یا تو عسکری کارروائی یا معاہدہ۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ جنگ نہیں چاہتے بلکہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ایرانی عوام ان کے بقول “بہت اچھے لوگ ہیں۔”

سنگین نتائج کی دھمکی

جہاں ایک طرف صدر ٹرمپ نے مصالحت کا عندیہ دیا، وہیں دوسری طرف ایران کو خبردار بھی کیا کہ اگر جوہری معاہدہ نہ کیا گیا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ مذاکرات کی راہ اختیار کرے۔

سفارتی دباؤ اور عالمی تشویش

عالمی برادری ایک بار پھر ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کی راہ دیکھ رہی ہے، کیونکہ جوہری معاہدے کی بحالی مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے لیے انتہائی اہم سمجھی جاتی ہے۔ یورپی طاقتیں بھی اس عمل میں سہولت کاری کے لیے سرگرم ہیں۔

Comments are closed.