امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری ہجرت اور بعض عرب ممالک کی حمایت سے فلسطینی ریاست کے قیام کو رد کرنے کے بیان پر سعودی عرب نے سخت ردعمل دیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے بدھ کے روز اپنے بیان میں واضح کیا کہ “مملکت کا فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق موقف اٹل اور غیر متزلزل ہے، جسے کسی صورت بدلا نہیں جا سکتا۔” وزارت نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ “ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات ممکن نہیں ہوں گے۔”
محمد بن سلمان کا واضح موقف
وزارت خارجہ کے بیان میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سابقہ بیانات کا حوالہ دیا گیا، جن میں انہوں نے فلسطینی ریاست کے حق میں اپنا سخت موقف ظاہر کیا تھا۔
18 ستمبر 2024 کو سعودی مجلس شوریٰ میں اپنے خطاب میں، ولی عہد نے واضح کیا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام سعودی عرب کی اولین ترجیح ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔
11 نومبر 2024 کو ریاض میں عرب-اسلامی سربراہ اجلاس کے دوران بھی شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنا یہ موقف دہرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ “1967 کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں جاری رہیں گی، اور اس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہوگا۔”
اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ
ولی عہد نے اپنے خطاب میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا اور زور دیا کہ عالمی برادری کو فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے لیے آگے آنا ہوگا۔
سعودی عرب کا فلسطینی کاز کے ساتھ غیر متزلزل عزم
سعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ، اسرائیلی جارحیت کے خاتمے، اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عملی اقدامات کرے۔
یہ بیان امریکی صدر کے حالیہ متنازعہ تبصرے کے بعد آیا ہے، جس میں انہوں نے فلسطینیوں کو دیگر عرب ممالک میں “منتقل” کرنے اور غزہ کو امریکی کنٹرول میں لینے کی تجویز پیش کی تھی۔
Comments are closed.