کہاں کہاں نہ لٹا قافلہ فقیروں کا؟  

تحریر: انجنیئر افضل ضیائی

 اسلام آباد: جو دنیا دار سیانے ہیں اور جن کی کشمیر کے معاشی پوٹینشل پر گہری نظر ہے وہ کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ سوال جب بھی پوچھا گیا ہے جواب دینے والوں نے ہمیشہ یہی قرار دیا کشمیر پاکستان کا دفاعی حصار ہے۔ پاکستان کے اندر بہنے والے دریاؤں کی گزر گاہیں اور سورسزکشمیر میں ہیں۔ کشمیر کے فلک بوس پہاڑ پاکستان کے دفاع کے استحکام کے ضامن ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کشمیر مملکت پاکستان کے لئے اتنا ہی اہم اور ناگزیر ہے تو پھر اس کے “وزن” کے مطابق ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جانا چاہیے۔ جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔

حیرت ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں منگلا ڈیم کی تعمیر کا منصو بہ بنایا گیا مگر کشمیریوں کیساتھ اس وقت کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا نہ شرائط طے کی گئیں نہ پیکیج دیا گیا متاثرین کے لئے ایک کمزور اور انتہائی لچکدار پالیسی بنائی گئی۔ کسی کو کچھ مل گیا تو ٹھیک ورنہ کسی نے اجڑنے والوں کے مسائل و مشکلات کو جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اجڑنے والے اجڑ گئے ۔ پنجاب و سندھ کے جاگیردار کو بہتے سونے کی ضرورت تھی وہ اسے مل گیا ، حکمرانوں نے کشمیر کو پہلے پہل اسی وقت فتح کیا تھا۔ اب دوسری بار فتح کرنے کی کوشش جاری ھے

یہ کہنا شاید خلاف حقیقت ہوگا کہ تمام کشمیری منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ غالباً ایسا نہیں ہے۔ حکمران چونکہ پہنچے بزرگ اور فرشتے ہوتے ہیں۔ لہذا انہیں عوام میں سے اپنے جیسے عناصر تھوڑی سی کوشش کر کے دستیاب ہو جاتے ہیں۔ نہ ہوسکیں تو حکمرانوں کے پاس اپنے مطلب کے بندے تلاش کرنے کے لئے سو طریقے موجود ہوتے ہیں۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا۔ حکمرانوں کی ہدایت یافتہ تکنیکی ماہرین کی فوج اور واپڈا کے چرب زبان بیوروکریٹوں نے شاندار رہائشی کالونیوں اور جدید سہولتوں سے آراستہ بنگلوں کے دل آویز مناظر عوامی نمائندگان کی آنکھوں میں اس طرح ٹھونسے کہ کشمیری “کوفیوں” کے دل ہی بدل گئے ۔ انہوں نے سیاسی حقوق کی صراط مستقیم ترک کر کے دجال کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اور کشمیری محب وطنوں کی آواز کمزور پڑ گئی۔

 عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے گزشتہ ایک عرصے سے کہا جارہا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے ذخائز یا گزرگاہوں پر قبضے کے لئے ہوا کریں گیں۔ منگلاڈیم کی تعمیر اور اپ ریزنگ کے نام پر برپا یہ جنگ انہی جنگوں میں سے ایک ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اول مملکت پاکستان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متبادل ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی اور موئے ہوؤں کو اور مارنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ اور دوئم اگر ایسا کرنا ہی ناگزیز ہے تو کشمیر کو فطری طور پر حاصل معاشی پوٹینشل کا جائزہ لیکرکر اس کے مطابق منصفانہ معاوضہ نہیں دیاجا رہابلکہ فقیروں کو ہی لوٹا جا رہاہے۔

Comments are closed.