اسلام آباد: کل 5 اگست ہے،2019 ء میں اسی دن اس روئے زمین کے بدترین ،ظالم اور سفاک انسان نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کی اسی لاکھ آبادی کو اپنے ہی گھروں میں محصور کرکے ان پر فوجی محاصرہ مسلط کیا،اہل کشمیر اپنے ہی گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے،ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد اس فوجی محاصرے کے شکار ہوئے،ذرائع مواصلات ختم،دفاتر،تعلیمی ادارے ،کاروباری مراکز،بازار،عدالتیں ،بینک بند جبکہ ٹرانسپورٹ پہلے نوماہ سڑکوں سے غائب رہا۔
مودی اور اس کے حواری سمجھ رہے تھے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اہل کشمیر کو یہ غیر آئینی اورغیر قانونی فیصلہ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرنے پر مجبور کریں گے،مگر ایسا نہ ہوسکا،نہ کشمیری عوام نے اس بھارتی اقدام کو قبول کیا اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے، خود بھارت کے باضمیر حلقوں نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کیا،سابق بھارتی وزیرخارجہ یشونت سہنا، او پی شاہ،سابق بھارتی ائیر وائس مارشل کپل کاک،اقلیتیوں کے قومی کمیشن کے سابق سربراہ وجاہت حبیب اللہ،معروف بھارتی صحاف بھارت بھوشن اور سینٹر آف دائیلاگ اینڈ ریکنسیلیشن کے پروگرام دائریکٹر ششہوبہ بریو نے کھل کر 5 اگست 2019 ء کے بھارتی اقدام کو یکسر مسترد کیا۔
بھارتی پارلیمنٹ کے کئی ممبران جن میں بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سابق سربراہ راہول گاندھی کی سربراہی میں ایک وفد نے مقبوضہ کشمیر آکر اس غیر آئینی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا، نہ بھارتی پارلیمنٹ کے وفد کو سرینگر کے ائیر پورٹ سے باہر نکلنے دیا گیا اور نہ ہی بھارتی سول سوسائٹی کے اراکین جن کی قیادت یشونت سنہا کررہے تھے کشمیری عوام تک پہنچے دیا گیا۔پہلے سال یعنی 2019 ء میں 28 اکتوبر کو مودی نے غیر ملکی سفیروں کو مقبوضہ کشمیر کے دورے پر بلاکر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی،مگر اس میں بھارت بری طرح ناکام رہا۔اس پہلے یورپی دورے پر لوگوں نے طرح طرح کے سوالات اٹھائے، بھارت میں واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار نیہا مسیح نے اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ پورپی وفد میں تین اراکین کو چھوڑ کر باقی سب کا تعلق یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔
انڈیا ٹوڈے کی فارن آفیئزز ایڈیٹر گیتا موہن نے یورپی یونین کے وفد کی ساخت پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ کیسا سرکاری وفد ہے کہ نئی دہلی میں موجود یورپی یونین کے دفتر کو اس کا علم ہی نہیں تھا ۔ نو جنوری 2020کو پورپی یونین کے وفد نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ اس بنیاد پر کرنے سے انکار کیا تھا کیونکہ یورپی سفرا اپنی مرضی کے علاقوں میں جانے اور لوگوں سے ملاقات کرنا چاہتے تھے،مگر بھارتی حکمرانوں میں ایسی اخلاقی جرات 1947ء سے اج تک پیدا ہی نہیں ہوئی،کیونکہ بھارتی حکمران جانتے ہیں کہ اہل کشمیر کیا چاہتے ہیں اور وہ بھارت سے متعلق کیا رائے اور خیالات رکھتے ہیں،امریکی سینیٹروں اور برطانونی ممبران پارلیمنٹ کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کیلئے ویزے ہی نہیں دیئے گئے،اور برطانوی ممبران پارلیمنٹ کو تو بھارت سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔
بھارتی حکمرانوں نے اہل کشمیر کی آواز کو خاموش کرانے کیلئے ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کرکے ان پر بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ ،پی ایس اے ،عائد کرکے انہیں اپنے گھروں سے دور بھارت کی جیلوں اور عقوبت خانون میں بند کردیا،جہاں انہیں زندگی کی تمام بنیادی سہولیات اور طبی امداد سے محروم رکھا گیا ہے۔پوری آزادی پسند قیادت کو گرفتار کرکے ان پر بھار ت سے غداری کے مقدمات قائم کرکے بدنام زمانہ تہاڑجیل میں مقید کیا گیا ہے،جہاں بیشتر ازادی پسند رہنما مہلک امراض میں مبتلا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں،ایاز اکبر کی اہلیہ جو کہ کینسر کی مرض میں مبتلا تھیں اللہ کو پیاری ہوگئیں،مگرایاز اکبر کو اہلیہ کی آخری رسومات میں بھی شرکت نہیں کرنے دی گئی، روان برس 5 اور 6مئی کی درمیانی رات تحریک ازادی کے سرکردہ رہنما اور تحریک حریت جموں وکشمیر کے چیئرمیں جناب محمد اشرف صحرائی کوٹ بلوال جیل میںخالق حقیقی سے جاملے ،انہوں نے شہادت سے قبل اپنے گھروالوں کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ انہیں تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ،اور انہیں مرنے کیلئے ہی جیل میں بند کیا گیا،بالاآخر وہی ہوا جس کا انکشاف عزم و ہمت کے پیکر جناب محمد اشرف صحرائی نے کیا تھا۔ان کی میت رات کے اندھیرے میں ان کے آبائی علاقہ لولاب پہنچائی گئی۔
بھارتی حکمرانوں کے اعصاب پر صحرائی صاحب اس قدر سوار تھا کہ گھر کے افراد کے سوا کسی کو ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرنے دی گئی،یوں صحرائی صاحب جان دیکر بھی بھارتی حکمرانوں کی اندھی طاقت اور توپ و تفنگ سے لیس ان کی لاکھوں افواج کے اعصاب پر بری طرح سوار یہ ابدی پیغام دے گئے ہیں کہ طاقت کے اندھے استعمال سے مظلوموں کو فتح کرنا ممکن نہیں ہے،اور یقینا شہیدمحمد اشرف صحرائی زندہ صحرائی سے زیادہ بھارت کیلئے خطرناک ہوگا۔
حال ہی میں تہاڑ جیل میں بند تحریک ازادی کے سرکردہ رہنما شبیر احمد شاہ کی ایک ٹیلی فونک گفتگو سوشل میڈیا پروائرل ہوچکی ہے جس میں وہ اپنی بیٹی سے گفتگو کرتے ہوئے سنے گئے،جس میں جناب شاہ اپنی بیٹی سے یہ ہدایت کرتے ہیں کہ ہمت نہیں ہارنا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی کمزوری کا اظہار کرناہے ،یہ لوگ یعنی بھارتی ہمیں یہاں مرنے کیلئے لائے ہیں،محمد یاسین ملک ،آسیہ اندرابی اور دوسرے رہنما سخت علیل ہیں مگر ان کی استقامت میں کوئی لغزش نہیں آرہی،حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدیں احمد کے دو بیٹوں سید شاہد یوسف اور سید شکیل یوسف جو کہ گزشتہ چار برسوں سے تہاڑ جیل میں بند ہیں کو حال ہی میں نوکریوں سے برخاست کیا گیا ہے۔آئے روز کشمیری نوجوانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے،بھارت کے دست قاتل کو بظاہر کوئی روکنے والا نہیں ہےمگر اہل کشمیر تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ لاکھوں شہدا کے خون سے مزین تحریک ازادی کو ہر حال میں کامیابی سے ہمکنار اور منطقی انجام کو پہنچانا ہے۔پورے مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019ء کے فیصلے کے خلاف جگہ جگہ پوسٹر چسپان جن میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کااظہار کیاجارہا ہے،بھارتی حکمرانوں کیلئے نوشتہ دیوار ہے کہ اہل کشمیر کو ظلم و جبر اور لوگوں کے قتل عام کی بنیاد پر غلام بنانا اور 5اگست 2019ء کے ظالمانہ فیصلے کو قبول اور تسلیم نہیں کروایا جاسکتا ہے۔
مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کشمیری عوام کو ان کی شناخت سے محروم کرنے کی منظم سازش اور منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ فسطائی مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ 5اگست 2019 کا غیر قانونی،غیر آئینی اور بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے منافی اقدام مقبوضہ کشمیرکی مسلم شناخت اور اس کی متنازعہ حیثیت پر حملہ تھا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل اور یہاں کی جغرافیائی ہیت کو بدلنے کے لیے حلقہ بندیوں کے نام پر بڑا کھیل کھیل رہا ہے۔ مودی دراصل ہندوتوا کا پیروکار ہے ، جس کا مقصدہندو بالادستی کا نظریہ ہے۔5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر آبادیاتی تبدیلیوں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ مودی منظم طریقے سے مقبوضہ کشمیر میں غیر ریاستی آباد کاروں کیلئے نوآبادیات کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے غیر ریاستی افرادکے لیے مقبوضہ کشمیرمیں آباد ہونے کی واحدرکاوٹ کو بھی ختم کردیا ۔آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی حکومت اہل کشمیرکو ان کی اپنی ہی سرزمین پر ملازمتوں اور دیگر مواقع و ذرائع سے محروم کر رہی ہے۔ بی جے پی- آر ایس ایس بھارت کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مکمل انضمام کی ان کی دیرینہ مذموم خواہش کی تکمیل چاہتی ہیں۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیرکی مسلم آبادی کو غیر قانونی طور پر تبدیل کر رہا ہے۔

بھارت مقبوضہ کشمیر میں مستقبل میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو متاثر کرنے کے لیے آبادی کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ بہادر اور اپنے نصب العین کی کامیابی کے حصول کیلئے کشمیری عوام مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے مذموم عزائم اور منصوبوں کو ہر حال میں ناکام بنا دیں گے جس کیلئے اہل کشمیرتاریخ کی لازوال جدو جہد کرنے کے علاوہ عظیم قربانیاں دے رہے ہیں۔
آئے روز کشمیری نوجوان اپنی جانیں تحریک ازادی پر قربان کرکے74 برس قبل بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے شروع کی گی تحریک ازادی کی اپنے گرم خون سے آبیاری کررہے ہیں۔یہ تحریک اہل کشمیر کی اپنی شروع کردہ تحریک ہے ،جس میں 1947 ء سے لیکر اج تک ساڑھے تین لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں،بھارتی دہشت گردی کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری معذور، 23 ہزار خواتین بیوہ،ایک لاکھ کے قریب بچے یتیم ،ہزاروں کشمیری بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں بدتریں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جائیداد و املاک کی تباہی اور مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں ہزاروں گمنام قبریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اہل کشمیر نہ تو خون سے سینچی تحریک ازادی سے دستبردار اور نہ ہی بھارت کے ناجائز،غاصبانہ،غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضے کو کسی صورت قبول اور تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں۔بین الاقوامی برادری کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے مذموم منصوبوں اور غیر قانونی اقدامات کا نوٹس لینے کے ساتھ ساتھ یہاں کی جغرافیائی ہیت اور آبادی کے تناسب کی تبدیلی کو روکنا چاہیے۔
Comments are closed.