غزہ: اسرائیل کے شدید حملوں کے باوجود، فلسطینی تنظیم حماس نے ایک بار پھر مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے میڈیا ایڈوائزر طاہر نونو نے کہا ہے کہ تنظیم نے مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا اور کسی نئے معاہدے کی ضرورت نہیں، بلکہ پہلے سے طے شدہ معاہدے پر عملدرآمد کیا جانا چاہیے۔
“اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے کا پابند بنایا جائے” – حماس
حماس کے مطابق وساطت کاروں اور عالمی برادری کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ وہ جارحیت روکے، فائر بندی معاہدے پر عمل کرے اور معاہدے کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرے۔ یاد رہے کہ یہ فائر بندی معاہدہ 19 جنوری سے نافذ العمل ہوا تھا، تاہم اسرائیل کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
“مذاکرات میں لچک دکھائی” – حماس
حماس نے وضاحت کی ہے کہ اس نے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیف ویٹکوف کی تجاویز کو مثبت انداز میں قبول کیا اور مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کیا، لیکن اسرائیل ابھی تک اپنی جارحانہ پالیسی پر قائم ہے۔
“یہ محض آغاز ہے” – نیتن یاہو
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حماس کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ غزہ پر حملے ابھی ختم نہیں ہوئے۔ انہوں نے واضح کیا:
> “یہ محض آغاز ہے، اب مذاکرات صرف گولی کے سائے میں ہوں گے۔”
جنگ بندی کے امکانات معدوم
نیتن یاہو کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے بجائے عسکری آپریشن کو مزید تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے خطے میں جنگ کے طول پکڑنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
عالمی برادری کی خاموشی؟
اگرچہ کئی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے، مگر تاحال کوئی عملی اقدام نظر نہیں آ رہا۔ ماہرین کے مطابق، اگر عالمی قوتوں نے فوری مداخلت نہ کی، تو جنگ کے مزید پھیلنے کا خطرہ ہے۔
Comments are closed.