ویانا۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق 2 میں سے ایک مسلح حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا جبکہ ایک فرار ہوگیا جس کی تلاش جاری ہے۔آسٹرین وزیر داخلہ نے الزام عائد کیا کہ ایک حملہ آور داعش کا حامی تھا، حملہ کرنے کا مقصد آسٹریا کے جمہوری معاشرے کو کمزور اور تقسیم کرنا تھا۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرس نے اس حملے کو ’نفرت انگیز دہشت گردی‘ قرار دیاپولیس کے مطابق ’متعدد مسلح ملزمان نے رائفلز سے‘ 6 مقامات پر حملے کیے جن میں یہودی عبادت گاہ کے قریب اور ٹاؤن کا وسطی حصہ بھی شامل ہے۔
پولیس نے بتایا کہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک راہ گیر ہلاک ہوا جبکہ دوسرا فرد زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا، ان کے علاوہ 15 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جن میں سے 7 شدید زخمی ہیں اور ایک پولیس اہکار بھی حملے میں زخمی ہوا۔
حملہ ایسے وقت ہوا کہ جب چند گھنٹوں بعد ہی آسٹریا میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے دوبارہ لاک ڈاؤن لگنے والا تھا اور لوگ ریسورنٹس اور دیگر تفریحی مقامات پر آزادی کے چند آخری لمحوں سے لطف اٹھا رہے تھے۔
آسٹرین چانسلر نے کہا کہ حملہ آور جدید ترین خودکار ہتھیاروں سے مسلح تھے اور پیشہ ور تیاریوں کے ساتھ تھے۔حملے کے بعد پولیس نے ویانا کے تاریخی مراکز سیل کردیے اور عوام کو اندر رہنے پر زور دیا گیا ہے جن میں سے متعدد لوگوں سے شراب خانوں اور ہوٹلوں میں پناہ لی جبکہ شہر کے پرانے حصے میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی معطل کردی
حملہ آور کی تلاش میں سرحدی مقامات پر نگرانی کڑی کردی گئی ہے اور وزیر داخلہ نے بچوں کی اسکول سے چھٹی کا اعلان کیا ہے، حالانکہ عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے شہر کے میئر نے بتایا کہ منگل کے روز شہر کے معمولات معمول کے مطابق جاری رہیں گے۔
Comments are closed.