غزہ کی پٹی میں جاری بحران پر مسلسل بیانات سامنے آ رہے ہیں، جہاں ایک نازک جنگ بندی معاہدہ کسی بھی لمحے ختم ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا متنازعہ منصوبہ پیش کیا ہے، جس پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں غزہ کے شہریوں کی نقل مکانی کا ذکر کیا گیا ہے، جس نے پہلے ہی عالمی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔
احمد داؤد اوغلو کا متنازعہ بیان
ایسے نازک وقت میں، ترکیہ میں حزبِ اختلاف کی جماعت “فیوچر پارٹی” کے سربراہ اور سابق ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو نے ایک متنازعہ بیان دے کر نئی بحث چھیڑ دی۔
نیو پاتھ پارٹی کے پارلیمانی بلاک کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے احمد داؤد اوغلو نے کہا کہ غزہ کو ایک خودمختار علاقے کے طور پر ترکیہ کے ساتھ دوبارہ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ان کے اس جرات مندانہ بیان نے سوشل میڈیا پر شدید بحث چھیڑ دی ہے، جہاں مختلف طبقات ان کے موقف کی حمایت یا مخالفت کر رہے ہیں۔
عالمی ردعمل اور ممکنہ اثرات
داؤد اوغلو کے بیان کے بعد کئی بین الاقوامی مبصرین نے اسے عالمی سیاست میں ترکیہ کے ممکنہ کردار کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔
ترکیہ کی حکومت نے اب تک اس بیان پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا، لیکن سیاسی حلقے اس پر شدید بحث کر رہے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ میں جاری جنگ بندی کا معاہدہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے اور خطے میں مزید کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
احمد داؤد اوغلو کا یہ بیان نہ صرف ترکیہ بلکہ پوری مسلم دنیا میں غزہ کی صورتحال پر جاری بحث میں ایک نیا رخ دے سکتا ہے۔ تاہم، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ترکیہ کی حکومت اس موقف کی حمایت کرے گی یا اسے محض ایک اپوزیشن رہنما کا انفرادی بیان سمجھا جائے گا۔
Comments are closed.