ترک عدالت نے 2016 فوجی بغاوت کیس میں درجنوں افراد کوعمر قید کی سزا سنا دی

انقرہ۔ 2016 میں فوج کی پشت پناہی میں ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان کو حکومت سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہا جاتا ہے کہ اس کی پشت پرمذہبی اسکالر فتح اللہ گیولن ہیں جو پہلے تو اردوان کے حامی تھے لیکن اب وہ ان کے مخالف ہوچکے ہیں اور امریکا میں مقیم ہیں، ترکی ان کی جماعت کو دہشت گردوں کا ٹولہ قرار دیتا رہا ہے جبکہ فتح اللہ نے اس سے انکار کیا ہے۔

2016 میں ہونے والی کاروائی پرترک عوام نے حکومتی دھڑن تختے کے سامنے شدید مزاحمت کی تھی تاہم اس میں 251 افراد ہلاک اور 2000 سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔ ترک عدالت نے فضائیہ کے فائٹر پائلٹوں کو انقرہ میں بمباری کرنے اور فوجی اڈے سے بغاوت کا منصوبہ بنانے پر ایک سے زائد مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

جن جرائم کے تحت سزا سنائی گئی ہے ان میں آئین سے انحراف، عوامی قتل اور صدر رجب طیب اردوان کو قتل کرنے جیسی دفعات اور الزامات شامل ہیں، اس موقع پرچیف جسٹس افق یقین نے اپنا فیصلہ سنایا کیونکہ وہ اس بغاوت سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے نمائندہ بھی ہیں۔حکومت کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی میں سب سے پہلے چیف آف اسٹاف ہولوسی آکار اور دیگر اعلیٰ افسران کو ایک فوجی اڈے پر ہی عسکری حکام نے یرغمال بنالیا تھا اور یہ واقعہ 16 جولائی کو پیش آیا تھا، اس کے بعد ایف 16 طیاروں سے پارلیمنٹ پر حملے کئے گئے اور صدارتی محل کے قریب بھی بمباری کی گئی تھی۔

Comments are closed.