آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے عطا الرحمن چشتی برطانوی وزیرخارجہ بن گئے

تحریر : ارشاد محمود

یہ کوئی اکتوبر 2011 کے آخری ہفتے کی بات ہے۔ چودھری عبدالمجید آزادکشمیر کے وزیراعظم برطانیہ کے دورے پرگئے۔ یہ طالب علم وہ وہاں کامن ویلتھ فیلوشپ ختم کرکے واپس گھر آنے والا ہی تھا کہ پیغام ملا کہ چودھری مجید صاحب چاہتے ہیں کہ ادھر ہی رک جاؤں اور ان کے ساتھ مختلف تقریبات میں شریک ہوں۔ چودھری مطلوب انقلابی اور بردارم مرتضے درانی بھی ان کے ہمراہ تھے۔

ہاؤس آف کامنز میں چودھری مجید کے اعزار میں عطا الرحمان چشتی کی طرف سے ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام تھا۔ صدر دروزے سے اندر داخل ہوئے تو دبلے پتلے نوجوان نے استقبال کیا۔ میں سمجھا کہ چشتی صاحب کا سیکرٹری یا کوئی معاون ہے۔ باتوں باتوں میں ہم تقریب میں پہنچ گئے۔ وہاں جا کر پتہ چلا یہ نوجوان ہی عطا الرحمان چشتی اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ چودھری مجید کے اعزار میں ہونے والی تقریب میں انہوں نے ہمیں چائے پلائی اورزیادہ تر کام وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتے رہے۔  محترمہ بے نظیر بھٹو کوی شہادت کا زخم ابھی تازہ تھا۔ چودھری مجید بے نظیر بھٹو کے ذکر پر آبدیدہ ہوگئے۔عطا الرحمان کے ممبر اسمبلی بننے پر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ مظفرآباد کے نواح میں واقعے پہٹیکہ نامی قصبے کے ایک عالم دین کے ہاں اجنم لینے والا نوجوان اس قدر جلدی اتنا سیاسی عروج کیسے پاسکتاہے؟ زیادہ پرانی بات نہیں وہ 1987 میں برطانیہ منتقل جہاں ان کے والد محترم کو ایک مسجد میں امامت کی ملازمت ملی تھی۔

 سال 2010 میں وہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اب میرا عطا الرحمان چشتی برطانیہ کاوزیرخارجہ ہے۔اسی لندن کا میئر محمد صادق ایک پاکستانی نژاد بس ڈرائیور کا فررند ہے۔ برطانیہ کے جمہوری اور سیاسی نظام ہی کو اہل پاکستان نے بھی اپنایا لیکن ہماری سیاسی جماعتوں میں متوسط طبقہ کے افراد کے لیے جگہ ہے اور نہ کسی پروفیشنل کے لیے کوئی مقام۔ سوائے چند ایک مثالوں کے بڑی سیاسی جماعتوں کی ساری کی ساری اعلیٰ لیڈرشپ خاندان کے افراد یا رشتے داروں پر مشتمل ہے۔ عالم یہ ہے کہ وہ بلدیاتی الیکشن میں بھی ٹکٹ اپنے رشتے داروں یا ذاتی وفاداروں یا دولت مندوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ گزشتہ ایک دھائی میں ہم نے سیاست میں عروج پاتے ہوئے کسی متوسط طبقے کو فرد کو دیکھا نہیں۔ عطا الرحمان چشتی یا محمد صادق ہمارے ملک میں ہوتے تو زندگی بھر ایسی معجزانہ سیاسی کامیابیوں کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ غالباًکونسلر بننا بھی انہیں نصیب نہ ہوتا۔ برطانیہ کا وزیرخارجہ یا لندن کا میئر تو دور کی بات ہے۔کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اندر کیسے اصلاحات لائی جائیں کہ عام گھرانوں کے افراد محض اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر سیاسی جماعتوں میں اپنی جگہ بناسکیں اور پارٹیاں بھی ان کی قدر کریں۔ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو آج کی نسل ہم سے پوچھتی ہے لیکن ہمارے پاس ادھر ادھر کے قصے کہانیاں سنانے کے سوا اور کچھ دکھانے کو نہیں۔پاکستان کو بھی عطا الرحمان چشتی اور محمد صادق کی طرح کے لوگ درکار ہیں جنہیں رنگ، نسل، دولت اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہ ملیں بلکہ صلاحیت، جذبے اور خدمت کی بدولت لوگ انہیں پلکوں پر بٹھائیں۔

Comments are closed.