آرٹیکل 370 کی منسوخی:بھارتی سپریم کورٹ میں اب تک کی سماعت کا مکمل احوال

 تحریر: مہتاب عزیز

 اسلام آباد: بھارتی سپریم کورٹ میں مودی حکومت کے 5 اگست 2019 کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کو دو الگ الگ مرکزی علاقوں ( یونین ٹیرٹری جموں کشمیر اور لداخ ) میں تقسیم کرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت روازانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔

کشمیر کے تین منتخب ممبران پارلیمان، انڈین آرمی اور انڈین فضائیہ کے سابق افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل 23 آئینی درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس چندرچوڑ کی سربراہی میں جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اورجسٹس سوریہ کانت پر مشتمل پانچ رکنی بنچ کر رہاہے، دواگست کو سماعت کے آغاز پربھارتی چیف جسٹس، دھننجے یشونت چندر چوڑ نے اعلان کیا کہ جنوبی ایشیا کے اس اہم ترین ایشو کی صرف 60 گھنٹے سماعت کی جائے گی۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اگست کے مہینے میں یہ سماعت مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم  سردست  ایسا ممکن  دیھائی نہیں دیتا۔

سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے مودی حکومت کے اُس بیان حلفی کو بحث سے خارج کر دیا تھا جس کے مطابق دفعہ 370 کے خاتمہ سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوئی ہے اور امن اور ترقی کا دور شروع ہو گیاہے، بھارتی اعلیٰ ترین عدالت میں اب تک کی سماعت کے دوران 13515 صفحات پر مشتمل دستاویزات پیش کی گئیں ہیں۔ دی فیڈرل کانٹریکٹ: اے کانسٹی ٹیوشنل تھیوری آف فیڈرل ازم، دی ٹرانسفر آف پاور ان انڈیا اور آرٹیکل 370اے کانسٹی ٹیوشنل ہسٹری آف جموں اینڈ کشمیر جیسی کئی کتابیں بھی بطور حوالہ عدالت کے سپرد کی گئیں ہیں ۔

بھارتی چیف جسٹس کے اعلان کردہ وقت سماعت میں سے صرف 20 گھنٹے باقی؟

ان سطور کی تحریر تک سماعت کو تقریبا 40 گھنٹے سے زیادہ مکمل ہو چکے ہیں، جس دوران آٹھ وکلا، کپل سبل، گوپال سبرامنیم، راجیو دھون، دشانت دوئے، شیکھر ناپھاڈے، دیمشیش دیویدی، ظفر شاہ اور چندر ادھے سنگھ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ بھارتی چیف جسٹس کے اعلان کردہ وقت میں سے صرف 20 گھنٹے باقی ہیں، جبکہ ابھی درخواست گزاروں کے مزید نو وکلاء نے دلائل دینے ہیں۔ ان میں پرسانتو چندر سین، سنجے پاریکھ، گوپال کرشن نارائنن، مینیکا گوروسوامی، نتیا راما کرشنن، منیش تیواری، عرفان حفیظ لون، ظہور احمد بٹ، پی وی سریندر ناتھ شامل ہیں۔ دوسری جانب ابھی سرکاری وکلا کے دلائل بھی باقی ہیں۔ مکمل ہے اس کے بعد جواب الجواب کا مرحلہ بھی آئے۔

ہندوستان کے معروف وکیل کپل سبل نے2 اگست کو اس اہم ترین کیس میں بحث کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے اپنے دلائل میں قرار دیا کہ جموں و کشمیر کے لیے ایک علیحدہ دستور ساز اسمبلی اسی لیے تشکیل دی گئی تھی کیوں کہ الحاق کی شرائط کے تحت بھارتی پارلیمنٹ خود جموں کشمیر کے لیے دستور سازی کا اختیار نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے بیع نامہ امرتسر سے لے کر 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کی بھارت سے الحاق کی دستاویزکے نقاط عدالت کے سامنے پیش کیے۔

 کپل سبل نے بھارت کے پہلے گورنر جنرل کا وہ خط بھی عدالت میں پڑھ کر سُنایا جس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریاست جموں وکشمیر کے مستقل الحاق کو کشمیری عوام کی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔کپل سبل نے آرٹیکل 370 کو ایک “عارضی انتظام” قرار دینے کے نقطے پر بھی دلائل دئیے۔ اُن کا استدلال تھا کہ بھارت کی آئین ساز اسمبلی نے اپنی سات سالہ مدت میں آرٹیکل 370 پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے بھی اپنی تحلیل سے قبل اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اس لیے اب آرٹیکل 370 کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب کوئی آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے۔

آرٹیکل 370(ون) کی شق (بی) بھارتی پارلیمنٹ کوریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیارنہیں دیتی، چیف جسٹس

اس سماعت کے آغاز میں بھارتی چیف جسٹس نے بھی اپنے ریماکس میں کہا تھا کہ آرٹیکل 370(ون) کی شق (بی) بھارتی پارلیمنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کشمیری پنڈت جج جسٹس کول نے ریماکس دیے کہ آرٹیکل 370کی شق (ون) (بی)کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کی ہندوستانی پارلیمنٹ کا اختیار صرف دو نقاط تک محدود ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف اور صرف “مرکز سے تعلق” اور “کنکرنٹ لسٹ” کے معاملات تک محدود قانون سازی کر سکتی ہے۔ اور یہ قانون سازی بھی ریاست جموں و کشمیر کی منتخب حکومت کے ساتھ مشاورت سے ہی ممکن ہے۔ الحاق کی دستاویز کے مطابق ریاست جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں قانون سازی کے لیے منتخب ریاستی حکومت کی آمادگی اور رائے کی ضروری ہے۔

جسٹس کول نے اپنے ریماکس میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر دفعہ 370 کا کوئی مستقل کردار نہیں تھا تو پھر، اس کو ختم کرنے کا آئینی طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے؟ جو طریقہ کار اپنایا گیا، وہ درست تھا؟بحث کے دوران جسٹس چندر چوڑ نے نے ریماکس دیا کہ پارلیمنٹ اور آئین ساز اسمبلی دو الگ الگ ادارے ہیں۔ پارلیمنٹ خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

آرٹیکل 370 ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد،دوحکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے، شیخ عبداللہ

کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے وقت جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ تھا اور ریاست کا گورنر جو وفاق کا ہی نمائندہ تھا کے ذریعے “ریاست کی خصوصی حیثیت” کو چھینا گیا۔ اُنہوں نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی 11 اگست 1952 کی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے۔ یہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے۔ اس سے چھیڑ چھاڑ، ریاست جموں کشمیر کی ہندوستان کے ساتھ وابستگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ایسی کوشش کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ سینئر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلیل پیش کی ہندوستانی آئین کی طرح ریادت جموں و کشمیر کا بھی اپنا الگ آئین ہے، جو 1957میں جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا تھا۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370 بھارتی اور جموں کشمیر کے آئین کے درمیان پل یا رابطے کا ذریعہ ہے ۔

سینئر ایڈوکیٹ سبرامنیم نے نکتہ پیش کیا کہ ریاست جموں و کشمیر، بھارت میں ضم ہونے والی کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں تھی۔ دیگر راجواڑوں کے برعکس، جموں و کشمیر کا اپنا 1939 کا آئین تھا ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بھی وہاں “پرجا پریشد” کے نام سے پارلیمنٹ طرز کا نظام موجود تھا۔ اُنہوں نے دلیل دی کہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی سے ہی ہندوستان کے صدارتی احکامات کا جموں کشمیر میں نفاذ ممکن ہوا تھا۔ اگر آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا مینڈیٹ نہیں تھا؟ ریاستی مقننہ نے اس شق کی منسوخی کا فیصلہ نہیں کیا؟ تو پھر دیگر ایسا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا جس کو استعمال کر کے ہندوستانی حکومت یا پارلیمنٹ آئین کی اس دفعہ کو منسوخ کر دے۔

مہاراجہ نے جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تھا،انضمام کا معاہدہ کبھی نہیں ہوا

جموں و کشمیر کے معروف وکیل ظفر شاہ نے اپنے دلائل میں وضاحت کی کہ آرٹیکل 370 نے جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ، مہاراجہ ہری سنگھ کے ذریعہ دستاویز الحاق میں درج اختیارات کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاراجہ نے جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ مگر انضمام کا کوئی معاہدہ کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے الحاق اور انضمام کی تشریح کرتے ہوئے واضع کیا کہ، چونکہ انضمام کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے، اس لیے جموں و کشمیر کی ‘آئینی خود مختاری’ برقرار ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بھارت کو جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف اور صرف دفاع، خارجی امور اور مواصلات سے متعلق قانون بنانے کے اختیارات حاصل ہیں، اور اس لیے لیے بھی آرٹیکل 370 میں ‘مشاورت’ کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ انسٹرومنٹ آف ایکشن کے تحت متعین کیے گئے ہندوستانی قوانین میں بھی یہ واضح ہے کہ ہدوستان کی پارلیمنٹ کو جموں کشمیر کے لیے محدود قانون سازی کے لیے بھی دونوں فریقین کی رضامند ہونا ضروری ہے۔ جموں و کشمیر کے تناظر میں، یہ ریاست کے لوگوں کی رضامندی ہوگی جس کا اظہار کم از کم بھی منتخب کابینہ کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے حوالے سے کوئی یکطرفہ فیصلہ کرے۔

جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیے؛’مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 1 کے لحاظ سے مکمل انضمام ہوا ہے،بھارتی چیف جسٹس مداخلت کر کے نے ریمارکس دیے جموں و کشمیر کے ذریعہ الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہوتی ہے۔ شاہ بنچ کے استدلال سے متفق نہیں ہو سکے،اس پر ظفر شاہ کا کہنا تھا کہ ریاست جموں کشمیر کی خودمختاری الحاق کی دستاویز کے ذریعے بھارت کو منتقل نہیں کی گئی۔ ایسا صرف ریاست کی جانب سے انضمام کے معاہدے کے ذریعے تھا۔اس پر بھارتی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کی ایک یونین ہوگی جس میں ریاست جموں و کشمیر بھی شامل ہے تو جموں کشمیر کی خودمختاری خود بخود بھارت کو مکمل طور پر منتقل چکی ہے۔ ہم ہندوستانی آئین کو ایک ایک ایسی دستاویز کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جو آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر کی خودمختاری برقرار رکھے۔

Activity - Insert animated GIF to HTML

اس پر ظفر شاہ ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 253 جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے، اس میں بھی یہ شق شامل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ ریاست کی حکومت کی رضامندی کے بغیر حکومت ہند نہیں کرسکتی ہے۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 306اے میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا حتمی فیصلہ تک زیر التواء ہے۔

اٹل بہاری واجپائی نے سری نگر میں کھڑے ہو کر اعلان کیا،مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا

بھارت کے سابق وزیراعظم اور بی جے پی رہنما اٹل بہاری واجپائی نے 2005 میں سری نگر میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ ’مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔ ڈاکٹر راجیو دھون ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ہندوستان ایک ملک کے بجائے ایک براعظم ہے۔ ریاستوں کی خود مختاری ہمارے آئین میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ 370 جیسا خصوصی انتظام نہ صرف جموں و کشمیر کے لیے ہی نہیں ہے، اس سے ملتے جلتے حقوق آرٹیکل 371 کے تحت کئی دیگر بھارتی ریاستوں کو بھی حاصل ہیں۔ ان کا کہنا تھا دوران سماعت چیف جسٹس نے آرٹیکل 249 اور 252 کا حوالہ دیا۔ جس نے درخواست گزاروں کے وکلاء کو آئین کے ‘بنیادی ڈھانچے’ کے خطوط پر بحث کرنے کا موقع ملا۔ جس سے بہت ہی اہم نقاط سامنے آئے ہیں۔ بنچ نے انضمام کے ‘معاہدوں کی حیثیت’ پر کئی سوال اٹھائے ہیں۔ اگر اُن سب سوالات سے مکمل اتفاق کر لیا جائے تو بھی اس کے نتیجے میں الحاق کی دستاویز “بیرونی خودمختاری” کے ختم ہونے کا باعث سکتی ہے، لیکن اندرونی خود مختاری ختم نہیں ہوتی،اُنہوں نے نشاندہی کی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے بجائے پاکستان کے ساتھ اسٹینڈ اسٹل معاہدہ کر رکھا تھا۔ جموں کشمیر ہائیکورٹ کے جسٹس پریم ناتھ نے اپنے عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 370 کو اسٹینڈ اسٹل معاہدے کا متبادل قرار دیا تھا۔

بھارتی آئین کا آرٹیکل 3 اور 1954 کا بھارتی صدارتی حکم نامہ

مہاراجہ نے الحاق کے ذریعے اپنی خودمختاری کو منتقل نہیں کیا تھا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 3 کے علاوہ 1954 کے بھارتئ صدارتی حکم نامے میں بھی واضع طور پر کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے کو بڑھانے یا کم کرنے یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بل جموں و کشمیر مقننہ کی رضامندی کے بغیر ہندوستانی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ متعدد بار وعدے کیے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کئی مواقع پر ہندوستانی لیڈران نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے لوگوں کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں۔ بشرطیکہ پرامن اور معمول کے حالات بحال ہوں اور رائے شماری کی غیر جانبداری کی ضمانت دی جا سکے۔

ایڈوکیٹ دشانت دوئے کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ 5اگست 2019 کے آئینی احکامات تضادات کا مجموعہ اوربھارتی آئین کے ساتھ بھی فراڈ ہیں۔ آرٹیکل 370 ہندوستان کے لیے کبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے اس حد تک عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ذریعے اپنی مستبل کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشروط طور پر ہندوستان کے تسلط میں الحاق کے لیے جو معاہدہ کیا تھا اس کی تشریح آرٹیکل 370 کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔ آرٹیکل 370 کی تشریح آرٹیکل 370 میں ہی موجود ہے۔ اس آئینی شق میں کسی قسم کی ترمیم کے لیے صرف اور صرف آئین میں درج طریقہ ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سینئر وکیل کپل سبل نے عدالت کے سامنے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے وقت پر بھی سوال اٹھایا۔ اُنہوں نے کہا کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے چند دن بعد آیا تھا۔ بی جے پی حکومت نے اس حملے کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔

ایک موقعہ پر کپل سبل نے آئینی پینچ کو بتایا کہ اسی سماعت میں دلائل دینے والے نامور قانون دان اور کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد بھٹ کو یہاں بحث میں حصہ لینے کے فورا بعد بطور پروفیسر معطل کر دیا گیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کسی کو عدالت میں پیش ہونے کا حق ہے۔ اس بنیاد پر انتقاما اُس کے خلاف کاروائی نہیں کی جا سکتی۔ اگر ایسا کیا گیا ہے تو بہت افسوس ناک ہے، اُنہوں نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ لیفٹیننٹ گورنر سے بات کریں اور معلوم کریں کہ کیا ایسا ہو ہے۔ اگر اس عدالت میں پیشی کی وجہ سے انہیں معطل کیا گیا ہے تو براہ کرم اس پر غور کریں۔

بھارتی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا آرٹیکل 370 کی منسوخی کا دفاع کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 ایک عارضی شق تھی۔ ماضی میں بھی اس حوالے سے متعدد بار اس میں ترمیم کی گئی ہے، جب بھی آرٹیکل 370 میں کوئی لفظ عملا بے معنی (otiose) بن گیا، اُسے بدل دیا گیا۔ جیسا کہ جموں کشمیر کے لیے صدر کے لفظ کو گورنر نے تبدیل کیا تھا۔ اس آرٹیکل کی منسوخی جموں و کشمیر کو ملک کے باقی حصوں کے برابر لانے کے لئے ایک ضروری قدم تھا۔ ریاست جموں و کشمیر میں صدر راج کے دوران آرٹیکل 3 کی معطلی انتظامی معاملہ تھا۔ اس سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو سرمایہ کاری اور سیاحت میں اضافہ جیسے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ اس معاملے کو جموں و کشمیر کے لوگوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام نے انہیں ملک کے دوسرے لوگوں کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ اب جموں کشمیرکے لوگوں کو یقین آ گیا ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35A انکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں رہے۔ اب سرمایہ کاری آرہی ہے۔ سیاحت شروع ہو چکی ہے۔ اب تک 16 لاکھ سیاح جموں کشمیر آ چکے ہیں۔ عوام کے لیے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ جن ججز کا جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ میں تقرر ہوتا تھا، وہ ریاست کے آئین پر حلف لیتے تھے۔ حالانکہ وہ بھارتی آئین کے تحت ڈیوٹی انجام دے رہے تھے، لیکن ان کا دوبارہ حلف ریاست کے آئین پر ہوتا تھا۔

سماعت کے باوہویں روز بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت سے کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کے لئے روڈ میپ اور ٹائم فریم کی وضاحت کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مرکزی حکومت کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ریاست کا درجہ کب بحال کیا جائے گا اور جموں و کشمیر میں انتخابات کب ہوں گے۔ عدالت نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ کو کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے؟
اس پر سالیسیٹر جنرل مہتا کا کہنا تھا کہ جلد ہی ایک مثبت بیان عدالت میں جمع کروا دیا جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کی یونین ٹریٹری والی حیثیت مستقل نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کا ارادہ ریاست کا درجہ بحال کرنا اور وہاں انتخابات کروانے کا ہے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ لداخ بدستور ایک یونین ٹریٹری ہی رہے گا۔

Comments are closed.